(کراچئ (رپورٹ ,ریاض سہیل بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی خصوصی رپورٹ )پاکستان کے صوبے سمدھ ےمیں صوبائی اسمبلی کے پہلے نو منتخب مسیحی ڈپٹی سپیکر انتھونی نوید نے حلف اٹھا لیا ہے۔ انھیں اتوار کو سندھ اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر منتخب کیا گیا۔ ان سے پہلے ہندو کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں مگر وہ پہلے مسیحی ہیں جو اس عہدے تک پہنچے ہیں۔واضح رہے کہ سی ای گبسن پاکستان کی قومی اسمبلی کے پہلے اقلیتی اور مسیحی ڈپٹی سپیکر رہے ہیں۔ ان کا دورانیہ 1955 سے 1958 تک تھا۔سندھ اسمبلی کے نو منتخب ڈپٹی اسپیکر انتھونی نوید نے سیاسی کیریئر کا آغاز بطور یونین کونسل کے نائب ناظم کی حیثیت سے کیا اور 19 سال کے سیاسی سفر کے بعد اب وہ سندھ اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کے منصب پر پہنچ گئے ہیں۔ انھیں پاکستان کے پہلے اقلیتی و مسیحی ڈپٹی سپیکر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔انتھونی نوید کی نامزدگی کا اعلان پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کیا تھا۔ اس سے قبل وہ سنہ 2018 میں اقلیتوں کی مخصوص نشست پر منتخب ہوکر سندھ اسمبلی پہنچے تھے جہاں وہ واحد مسیحی رکن اسمبلی تھے۔اس بار بھی، پیپلز پارٹی نے ان کا نام اقلیتی اراکین کی فہرست میں شامل کیا۔ انتھونی نوید کے علاوہ خواتین کی نشست پر روما مشتاق بھی منتخب ہوئی ہیں جو سندھ اسمبلی کی پہلی مسیحی خاتون رکن ہیں اور انتھونی کی طرح سیاسی ورکر گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔53 سالہ انتھونی نوید کی پیدائش کراچی کے متوسط علاقے اختر کالونی کے ایک رومن کیتھولک گھرانے میں ہوئی۔ انتھونی کے بقول، ان کے والد رحمت مسیح محنت مزدوری کرتے۔ ان کے پاس ایک چھوٹی پرائیوٹ ملازمت تھی۔ انتھونی کی دو بہنیں ہیں
انتھونی نوید کراچی کے متوسط علاقے اختر کالونی کے ایک رومن کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئے۔سینٹ پیٹرک سکول سے میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد، انتھونی نے سوئیڈش کالج سے گارمنٹس ٹیکنالوجی انجنیئرنگ میں ڈپلومہ کیا۔وہ کمیونٹی کی سطح پر کافی سرگرم رہے ہیں۔ انتھونی کراچی کرسچن بوائز ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ سنہ 2002 میں ٹورنٹو میں منعقد ورلڈ یوتھ ڈے میں انھوں نے کیتھولک یوتھ کمیشن آف پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ اس کے علاوہ، وہ پاکستان کرسچن کانگریس کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں۔انتھونی نوید کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے کام کیا جب کہ وہ کیریئر کاؤنسلنگ بھی کرتے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ وہ سیلف میڈ انسان ہیں اور ان کو تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کرنا پڑتی تھی انتھونی (درمیان) کراچی کرسچن بوائز ایسوسی ایشن کے نائب صدر رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں اقلیتوں کے لیے جداگانه انتخابی نظام متعارف کروایا گیا۔ اس نظام کے تحت، اقلیتی نمائندے عام نشستوں پر انتخاب نہیں لڑ سکتے تھے۔ انتھونی کے مطابق انھوں ایسے ہی ماحول میں شعور سنبھالا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں، سنہ 2005 کے بلدیاتی انتخابات میں انتھونی نوید کو پاکستان پیپلز پارٹی نے کراچی کے علاقے اختر کالونی کی یونین کونسل پر نائب ناظم کے لیے ٹکٹ دیا۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے بتایا کہ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کا جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد تھا۔ اس اتحاد کے تحت، اختر کالونی میں ناظم جماعت اسلامی جبکہ نائب ناظم پیپلز پارٹی کا ہونا تھا۔ مسیحی برادری سے امیدوار لانے پر جماعت اسلامی نے خوش دلی کا اظہار نہیں کیا لیکن انھیں بتایا گیا کہ یہ پارٹی کا فیصلہ ہے۔ اس الیکشن میں نوید انتھونی کامیاب ہوئے۔،لانتھونی کے بقول، پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں سندھ میں سرگرم رہنے کی ہدایت کی۔یاد رہے کہ ان بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کراچی کے میئر منتخب ہوئے تھے جبکہ شہری حکومت میں سعید غنی اپوزیشن لیڈر تھے۔
انتھونی کہتے ہیں کہ یہ انتخابات مسیحی برادری کو مین سٹریم سیاست میں لانے کا پہلا تجربہ تھا جو کامیاب رہا۔ اس کے بعد، اس ہی حلقے سے سنہ 2018 سے سعید غنی کامیاب ہوتے آرہے ہیں۔پارٹی خدمات کے بدلے، سنہ 2016 میں انتھونی کو وزیر اعلیٰ کا سپیشل اسسٹنٹ بنایا گیا۔ اس کے بعد انھوں نے سینیٹر بننے کے لیے کوششیں تیز کر دیں۔ انتھونی کے بقول، پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو نے انھیں سندھ میں سرگرم رہنے کی ہدایت کی اور سنہ 2018 میں انھیں سندھ اسمبلی کا رکن نامزد کر دیا گیا۔نوید انتھونی کے مطابق سندھ اسمبلی کی رکنیت بھی ان کے لیے ایک چئلینج رہی کیونکہ وہاں وہ واحد مسیحی پارلیمینٹرین تھے۔ انتھونی اقلیتوں کے آئینی حقوق کے لیے سرگرم تنظیموں کا بھی حصہ رہے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ نیشنل لابِنگ ڈیلیگیشن فار مینارٹی رائٹس کے تحت انھوں نے پورے ملک میں ایک مہم چلائی تھی جس میں اقلیتوں کے جن حقوق کی آئین میں ضمانت دی گئی ہے ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی گئی۔انتھونی نوید کہتے ہیں کہ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں تو مسائل ہو ہی نہیں سکتے’گذشتہ ستّر سال سے ہندو میرج لا نہیں تھا اس کے لیے لابنگ کی، کرسچن پرسنل قانون بھی نہیں ہے۔ ملازمتوں میں کوٹہ پر عملدرآمد صرف چھوٹی ملازمتوں پر ہی ہوتا ہے اس کے علاوہ تعلیمی کوٹہ بھی نظر انداز کیا جاتا ہے۔‘انتھونی کہتے ہیں کہ انھوں نے سینیٹر اور رکن اسمبلی بننے کے لیے تو کوششیں کیں تھی لیکن انھوں نے خواب میں بھی ڈپٹی سپیکر بننے کے بارے نہیں سوچا تھا۔ وہ کہتے ہیں کیونکہ یہ ایک آئینی منصب ہے تو اس میں قانون سازی کرنے کی گنجائش نہیں۔ لیکن ان کو امید ہے کہ پارٹی کی رہنمائی اور دوستوں کا ساتھ رہا تو ان کی کوشش ہوگی کہ ملازمتوں اور تعلیمی کوٹہ پر عملدرآمد کروائیں اور کرسچن پرسنل لا پر قانون سازی کروائیں۔
’اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں تو مسائل ہو ہی نہیں سکتے‘انتھونی نوید جس ہاؤس کے کسٹوڈین ہوں گے وہاں کراچی کی تین بڑی جماعتیں یعنی ایم کیو ایم، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی اپوزیشن میں ہوگی جو پاکستان پیپلز پارٹی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کا ارادہ رکھتی ہیں۔جب انتھونی سے پوچھا گیا کہ آیا اس صورتحال میں وہ ہاؤس بخوبی چلا پائیں گے تو ان کا کہنا تھا کہ ایک چیز جو انھوں نے اپنے استادوں سے سیکھی ہے اور صدر آصف زرداری بھی کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اختلاف رائے پر اتفاق کرلیں تو مسائل ہو ہی نہیں سکتے۔ ’اختلاف کو ذاتی مسئلہ بنائیں گے تو پھر معاملہ خراب ہوتا ہے۔‘
نوید انتھونی کو ذاتی زندگی میں بھی امتیازی سلوک کا سامنا رہا، وہ کہتے ہیں کہ کئی واقعات تو ایسے ہیں جو بتائے بھی نہیں جا سکتے۔نوید انتھونی رکن اسمبلی بننے کے بعد بھی اختر کالونی کے اپنے مشترکہ گھر میں رہتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ان کی پیدائش وہا ہوئی، شادی وہیں ہوئی اور بچے بھی وہیں پیدا ہوئے۔ ’میں اپنے لوگوں کے درمیان رہتا ہوں، اگر ان سے نکلوں گا تو میری شناخت ختم ہو جائے گی۔