( تحریر: سعید جان بلوچ)
14نومبر 1958 کراچی میں سید حسن امام کے ادبی گھرانے میں آنکھ کھولنے والے ممتاز صحافی شاعر مصنف ڈرامہ نگار صدا کار جاوید صبا کا نام کراچی کے صحافتی اور ادبی حلقوں میں اپنی منفرد شناخت اور شرافت کے باعث انتہائی احترام کے ساتھ اپنا مقام بنا چکا ہے.
، کراچی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بلوچستان یونیورسٹی سے جیولوجی میں ماسٹرز کر کےارضیات کے تصورات کے معنی معلوم کرنے اور مٹی کی دنیا کی بیرونی اور داخلی شکل کے بارے میں تحقیق کرنے کے بجائے انہوں نے زمانہ اسکول کے دوران جنم لینے والے شاعر بننے کی خواہش کو اپنی منزل بنانے کا فیصلہ کیا
1985 میں ماسٹرز کرنے کے بعد صحافت کی پہلی نوکری ہی ان کا پیشہ بن گیا بلوچستان کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ انتخاب میں ادارتی صفحہ کے انچارج کے فرائض کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے اخبار روزنامہ جنگ میں 1994 سے 2004 تک کام کرتے رہے.
پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آمد نے جاوید صبا کے کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کےدروازے کھول دیے اور وہ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرونک میڈیا کے ہو گئے پہلے وہ اے آر وائی اور پھر سماء ٹی وی میں کام کرتے رہے ہے 2009 میں ایکسپریس ٹی وی میں چلے گئے اور اسی چینل میں ان کا مشہور ٹی وی پروگرام ؛کوئی دیکھے نہ دیکھے شبیر تو دیکھے گا؛ آن ائیر ہوا تو یہ یہ مقبول مکالمہ بن گیا اور مقبولیت کو چھونے لگا ۔اس پروگرام کا آئیڈیا بھی جاوید صبا کا تھا اور اس مصنف اور صداکار بھی وہ ہی ہیں اور یہ پروگرام آج بھی ایکسپریس ٹی وی کا مقبول پروگرام ہے۔سندھ کے مشہور ضلع خیرپور میں کبوتروں کی اڑان کے مقابلے میں دو گروپوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں ایک شخص کی ناک کٹ جانے کے واقعے کو جاوید صاحب نے جس طرح ڈرامائی تشکیل دی وہ ایک بڑے رائٹر بن کر ابھرئے ۔
گھر کے ادبی ماحول کی وجہ سے بچپن ہی سےکتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوا میرانیس کے مرثیہ کو اپنے گھر کی مجالس میں شاعرانہ انداز میں پڑھ کر اپنے شاعر ہونے کی اطلاع اپنے گھر والوں کو پہلے کر چکے تھے جب وہ کالج میں آئے تو ساحر لدھیانوی کی شاعری نے ان کورومانی شاعری اور غزل لکھنے کی طرف مائل کیا 1971 میں جب وہ ریڈیو پاکستان کراچی کے مقبول پروگرام جشن تمثیل جس کومعروف پروڈیوسر مرحوم یاور مہدی پروڈیوس کرتے تھے اس کے پروگرام نشان حیدر میں ایک اہم کردار کی صدا کاری کی اس طرح وہ ریڈیو پاکستان کے پروگراموں میں شرکت کرنے لگے اس دوران ریڈیو پاکستان کے مشاعرے میں بھی ان کو شرکت کی دعوت مل ے لگی تو ان کو خود پہلی بار معلوم ہوا کہ ان کے اندر ایک شاعر بھی موجود ہے ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں جاوید صبا مزاحمتی شاعری کی طرف آئےاور ایک نظم لکھ ڈالی جو ادبی حلقوں میں میں کافی مقبول ہونے کی وجہ بنی.
1985 میں انہوں نے اپنی پہلی غزل لکھی
” اپنی آواز کی تکرار سے باتیں کرنا”
” جشن تنہائی ہے دیوار سے باتیں کرنا”
اپنی پہلی غزل میں تنہائی سے باتیں کرنے کے بعد ان کی زیادہ تر غزلیں ان کی تنہائی کے بارے میں میں پتہ دیتی ہیں جیسے
"مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں”
"یہ لیجئےآپ کا گھر آ گیا ہے ہاتھ چھوڑیں”
اس شاعری کے بعد جاوید صاحب کا نام ممتاز شعراء جون ایلیاء، عبیداللہ علیم، قمر جمیل، سلیم اختر کے کانوں تک پہنچا اور پھر انھوں نے ہر مقام پر جاوید صباء کی کی حوصلہ افزائی فرمائی سید حسن جاوید سے ان کا نام جاوید صباء کب ہوا یہ خود ان کو بھی معلوم نہیں..
جاوید صبا کے 2 شعری مجموعے عالم میرے دل کا اور کوئی دیکھ نہ لے”
شائع ہو چکے ہیں وہ آرٹ کونسل آف پاکستان کراچی کی گورننگ باڈی کے دو بار رکن منتخب ہو چکے ہیں ہیں جبکہ الیکٹرانک میڈیا سےتعلق رکھنے والے صحافیوں کی کی تنظیم ایسوسی ایشن آف ٹی وی جرنلسٹس کے دو مرتبہ صدر بھی رہ چکے ہیں ان کی شادی 1991 میں میں کراچی میں ہوئی ان کی اہلیہ انتہائی سلیقہ مند اور اور پڑھی لکھی خاتون ہیں ڈی ایچ اے کالج کراچی میں شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہے تمام بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے اپنے شعبوں میں مقام بنانے کی جدوجہد میں ہیں ایک بیٹا APP اسلام آباد بعد میں ملازمت کررہا ہے جبکہ ایک بیٹا سائیکلوجسٹ ہے جبکہ ان کی اکلوتی بیٹی ڈاکٹر بننے کی تیاری کر رہی ہے جاوید صباء کےگھر کا ماحول بھی ادبی ہے ان کے گھر میں رات کے کھانے میں یا پھر چھٹی والے دن موضوع بحث کرنٹ آفئیر اور شاعری ہوتی ہے ان کا بیٹا سید جاوید نوحہ خوانی بھی کرتے ہیں جبکہ دانیال جاوید گٹاریسٹ بھی ہے
صباء متعدد مرتبہ بیرونی ممالک امریکا، انگلینڈ، دبئی، بھارت مشاعرے میں شرکت کے لیےجا چکے ہیں.
جاوید صبا انتہائی کم گو ہے ہے وہ اپنی دنیا میں مگن رہتے ہیں ہیں ان کی خاموشی اشعار کی آمد کا پتہ دیتی ہے وہ شاعری کو پیشہ یا کوئی فن نہیں بلکہ اس کو شاعر پر اشعار کی آمد قرار دیتے ہیں ان کا ماننا ہے کہ کوئی بھی شاعر اس وقت تک شعر نہیں کہہ سکتا جب تک اس پر اشعار کی آمد نہ ہو
وہ شاعری کے وجود کو قدیم وجود قرار دیتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اسلام سے قبل دنیائے عرب میں شہدائے کرام کا ایک مقام تھا ہر قبیلے میں ایک بڑا شاعر ہوتا تھا جو دوسرے قبیلے کے شاعر کو اپنی شاعری سے مات دے کر اپنے قبیلے کی سربلندی کا باعث بنتا تھا زمانہ اسلام سے قبل کل ان کی شاعری خانہ کعبہ کہ دیواروں پر لکھی جاتی تھی اس وقت بھی شاعر اپنی شاعری کوآمد قرار دیتے تھے.
جاوید صبا کی شاعری میں تنہائی انکا موضوع ہے یا پھر ان کی شاعری تنہائی میں ہوتی ہیں یہ خود ان کو معلوم نہیں ہے لیکن ان کی شاعری ان کی تنہائی کی مخبری ضرور کرتی ہیں جاوید صاحب خود کہتے ہیں کہ
بھلا پھسلا کے اسے چھوڑنے نکلا گھر سے
کیا کروں ہاتھ نہ چھوڑا مرا تنہائی نہیں”
اپنی دنیا میں گم رہنے والے جاوید صباء ہمارے استاد ممتاز صحافی ریسرچر ،مصنف ڈاکٹر اختر بلوچ مرحوم کے ساتھ کراچی پریس کلب کے کارڈ روم میں انتہائی سحر حاصل ادبی تاریخی گفتگو کرتے تھے جس کا ایک سامع میں بھی ہوتا تھا ایک دن مجھے اختر بلوچ نے کہا کہ کہ بلوچ صاحب آپ سب کے بارے میں لکھ رہے ہو جاوید صباء کے بارے میں لکھو اور یہ جاننے کی کوشش کرو کہ کیوں اس کی شاعری تنہائی سے شروع ہوکر تنہائی پر ختم ہوتی ہے ڈاکٹر اختر بلوچ کی زندگی میں میں مجھے وقت نہیں مل سکا اب میں جاوید صباء پر لکھ رہا ہوں
جاوید صباء ایک پڑھے لکھے سنجیدہ اور سلیقہ مند ادبی شاعری کرتے ہیں وہ دیگر صحافیوں اور شعراء کی طرح بے حد حساس ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ وہ تنہا نہیں ہے نہ ہی تنہائی اس کی ساتھی ہے وہ تمام دوست اس کے ساتھ ہیں اور وہ تمام دوستوں سے بے حد محبت کرتے ہیں اللہ پاک ان کو ہمیشہ خوش رکھے صحافت اور ادب کی دنیا میں ان کو مزید کامیابیاں نصیب کرے.