اسلام آباد(نمائندہ خصوصی/ نیٹ نیوز )وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ترقی پزیر ملکوں کے نقصانات کے ازالے اور وہاں حیاتیاتی تنوع کے اہداف کے حصول کے لیے انہیں مزید مالی امداد کی فراہمی ناگزیر ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے G77 اور چین کی جانب سے سٹاک ہوم+50 کے پہلے اجلاس میں کیا۔ اجلاس میں ایک سو چونتیس ممالک نے شرکت کی، اجلاس میں ایک سو چونتیس ممالک نے شرکت کی۔ اجلاس میں عام بحث میں دس سے زائد سربراہان مملکت اور ایک سو تیس شریک رکن ممالک کے نوے سے زائد وزراء کے علاوہ سول سوسائٹی اور نجی شعبے کے نمائندوں نے حصہ لیا۔
وفاقی وزیر نے ترقی یافتہ ممالک پر زور دیا کہ وہ ترقی پذیر ممالک کے لیے حیاتیاتی تنوع اور گیسوں کے اخراج سے ہونے والے نقصان سے نمٹنے کے لیے آسان اور طویل المدتی موسمیاتی فنانسنگ کی ضرورت” پر زور دیا۔ترقی یافتہ ممالک کے کردار پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے موثر اور ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ماحول اور قدرتی وسائل کے تحفظ اور پائیدار استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔COP26 کے نتیجے میں عالمی اوسط درجہ حرارت میں
اضافے میں کمی سے متعلق طویل مدتی عالمی اہداف کو پورا کرنے کے لیے مثبت کاوشوں کو آگے بڑھایا گیا۔ترقی یافتہ ممالک تاریخی طور پر زیادہ تر عالمی اخراج کے ذمہ دار رہے ہیں اور انہیں اپنے اخراج میں قطعی اور نمایاں کمی کرنی چاہیے۔ ہم COP 26 میں گلاسگو میں ہونے والے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں تاکہ 2025 سے پہلے موسمیاتی فنانس کے نئے اجتماعی اہداف کے حصول کے لیے پیش قدمی کریں۔ شیری رحمٰن نے دس سالہ فریم ورک آف پروگرامز آن سسٹین ایبل کنزمپشن اینڈ پروڈکشن پیٹرنز (10YFP) کی طرف سے پیش رفت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے تمام شراکتدار ممالک کو اس پر عمل درآمد کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے SDG12 کے نفاذ اور پائیدار کھپت اور پیداوار کے لیے عالمی اور جامع مکالمے کو فروغ دینے کے لیے پہلے “ون پلانیٹ نیٹ ورک فورم” کے انعقاد کا بھی خیر مقدم کیا۔
UNEP میں گلوبل ساؤتھ کی نمائندگی سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ ہمیں اقوام متحدہ کے ماحولیات پروگرام (UNEP) کے اندر جغرافیائی نمائندگی میں گہرے اور مستقل عدم توازن کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے مناسب مالی اور تکنیکی صلاحیت کی مدد کے بغیر، ترقی پذیر ممالک 2030 کے ایجنڈا برائے پائیدار ترقی اور پیرس معاہدے کے طے شدہ اہداف کو حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان نے پینلسٹ مباحثہ کی ایک اور تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صرف صنعتی شعبہ ہی سالانہ 7.6 بلین ٹن سے زائد فضلہ پیدا کرتا ہے۔
اس کچرے میں سے 75 فیصد کو ری سائیکل کرنے کی صلاحیت ہے۔ تاہم اصل میں صرف 30 فیصد ری سائیکل کیا جاتا ہے۔ بیسل، روٹرڈیم اور سٹاک ہوم جیسے کنونشن قومی ایکشن پلان بنانے اور جامع اور طویل مدتی حکمت عملی مرتب کرنے کے لیے بہت کارآمد ہیں جو پاکستان جیسے ملکوں میں حدت بندی میں اضافے سمیت دیگر متعدد پیچیدہ بحرانوں سے نمٹنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ ہمیں سنگین ماحولیاتی تنوع کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ملک کا آدھا حصہ متعدد سیلابوں کا سامنا کر رہا ہے جبکہ باقی آدھا خشک سالی اور صحرائی علاقوں سے بنجر ہے۔ پاکستان پچھلے تین سالوں سے اس کرہ ارض پر گرم ترین شہری رہائش گاہوں میں سے ایک کا گھر رہا ہے۔ ہماری حکومتیں آلودگی، حیاتیاتی تنوع کے نقصان اور آب و ہوا کے بحرانوں سے نمٹنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ان کنونشنز کی طرف دیکھتے ہیں تاکہ ہماری بہترین رہنمائی کی جاسکے جبکہ ان کنونشنز کو ماحول کی آلودگی کا باعث بننے والے دوسرے ممالک کے خطرناک فضلہ کی برآمدگی کی روک تھام کو بھی یقینی بنانا ہو گا ۔
وفاقی وزیر نے زور دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے کنونشنز کو ترقی پذیر ممالک کے فضلے کو ری سائیکل کرنے کے طریقہ کار کو ہموار کرنا کے لیے ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ فضلہ ملکوں سے باہر نہ بھجا جائے۔