کراچی(نمائندہ خصوصی) عالمی اردو کانفرنس کے چوتھے روز اکیسویں صدی میں اردو تنقید کے موضوع پر سیشن میں ڈاکٹر تحسین فراقی نے کہا کہ تنقید ایک پراسرار عمل ہے جس کے اسرار کو سمجھنا مشکل کام ہے ، البتہ ایک اچھا تخلیق کار اچھا تنقید نگار بھی ہو سکتا ہے ، تخلیق ستارے کو آفتاب بنانے کا جاں گسل عمل ہے، تنقید کے لیے بنیادی چیز متن تک پہنچنا ہے جس کیلئے تخلیقی پس منظر کا وسیع فہم رکھنا ضروری ہے، تنقید کا معاملہ اتنا سادہ نہیں بلکہ نہایت گہرا اور عمیق معاملہ ہے جس میں تمام متعلقہ امور پر غور ضروری ہے، بدقسمتی سے ہمارے ہاں تنقید میں مابعد نوآبادیات کا بہت چرچا ہے جبکہ نوآبادیاتی نظام کا وجود ابھی تک برقرار ہے ، ہمیں تھوڑا آگے بڑھ کر عصری صورت حال کا احاطہ کرنا چاہیئے ، فراقی صاحب کے ہمراہ سیشن کی صدارت کرتے ہوئے ڈاکٹر رو¿ف پاریکھ نے کہا کہ سچ ایک ہی ہے متبادل سچ نہیں ہو سکتا، مغرب اور مشرق کے طرزِ فکر میں ہمیشہ سے جنگ رہی ہے ،اکیسویں صدی میں ہمارے ہاں تنقید کی مبادیات پر ہی بات ہو رہی ہے جبکہ ہندوستان میں اس پر ٹھوس کام ہوا، اردو میں پہلے غزل گو ہوا کرتا تھا اب غزل گا ہوتا ہے، پروگرام کی نظامت کے فرائض اقبال خورشید نے انجام دیے، ناصر عباس نیر نے کہا کہ اکیسویں صدی میں نظری تنقید زیادہ کی گئی جس میں مغرب سے ادبی سرقہ کو ہدف بنایا گیا ہے، انسانی سرگرمیوں میں سب سے موثر لکھنے کی سرگرمی ہے، جس کے پانچ بنیادی پہلو ہیں ، تنقید بھی ایک اہم سرگرمی ہے، تنقید نگار اپنی رائے قائم کرتے ہیں اور اسے آگے پیش کرتے ہیں، نائن الیون اور اسلامو فوبیا کے بعد مغرب سے نفرت میں اضافہ ہوا، خالص انٹیلیکچول ہر چیز کے بارے میں ایماندارانہ رائے ظاہر کرتا ہے، بیسویں صدی میں جدیدیت، روایت پسندی کو تنقید کا موضوع بنایا گیا، 1970 کے بعد اس رجحان میں تبدیلی آنا شروع ہوئی، اکیسویں صدی میں تنقید فلسفہ ادب پر بحث کرتی ہے یعنی ادب کو فلسفہ کے طور پر دیکھنا، شمس الرحمٰن فاروقی نے اپنی داستانوں کی کتاب کے ذریعے اس کی بنیاد رکھی جو بیسویں صدی کی تنقید سے بالکل مختلف ہے، اردو فکشن پر تنقید کے موضوع پر قاسم یعقوب نے کہا کہ لٹریچر کو دیکھنے کا انداز گزشتہ عشروں کے دوران بدلا ہے، اکیسویں صدی کی اردو فکشنل تنقید میں مخصوص طرز اپنایا گیا، نقاد جب کہانی پر نظر ڈالتا ہے تو کہانی کے اندر جانے کے بجائے اس کے باہر رہتا ہے اور اس کی اصل تک نہیں پہنچ پاتا، پاکستان میں نئے ناولوں پر بہت کم بحث ہوئی ہے جبکہ باہر اس پر بہت کام ہوا ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ، ناول نگار خود میدان میں آگئے اور خود فکشن کی انٹر پریٹیش شروع کر دی،فکشن تنقید کی آج اہم ضرورت یہ ہے کہ سن 2000 کے بعد جو کچھ ہوا اور جتنا اس پر لکھا گیا اس کا احاطہ کیا جائے، نجمہ عثمان نے اکیسویں صدی میں تانیثی تنقید کے حوالے سے کہا کہ موجودہ صدی میں اردو تنقید کا جائزہ لینے کیلئے گزشتہ صدی کے دوران ہونے والے تنقیدی نظریات کو سامنے رکھنا ہو گا، پاکستان اور ہندوستان میں تانیثی تنقید پر بہت کام ہوا ہے جبکہ یورپ اور امریکہ میں اس پر اتنا کام نہیں ہوا ، فہمیدہ ریاض اور ڈاکٹر فاطمہ حسن نے اپنی کتاب میں تانیثی نکتہ نظر کی کئی جہتیں پیش کی ہیں، دیگر لکھنے والوں نے بھی اس پر بہت کام کیا،اکیسویں صدی میں اردو غزل پر تنقید کے حوالے سے ضیاء الحسن نے کہا کہ غزل پر تنقید نہ ہونے کا شکوہ کیا جاتا ہے حالانکہ غزل پر تنقید کی تاریخ بھی اردو تنقید کی تاریخ کے برابر ہے ، 125سال سے غزل پر تنقید ہو رہی ہے ، ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ ہم غزل کو ہی شاعری سمجھ بیٹھے ہیں اور شاعری کی دیگر اصناف کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، اکیسویں صدی میں غزل پر تنقید کی اہم ترین کتاب ڈاکٹر شمیم حنفی نے لکھی ہے جو قاری کے وجود میں اترتی چلی جاتی ہے اور اس پر غزل اور اس کی مبادیات کے پہلو وا ہوتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ جدید اردو غزل اور کلاسیکی اردو غزل میں بنیادی طور پر کیا فرق ہے۔