کراچی (رپورٹ: سید اقبال احمد ہاشمی) کراچی بارشوں کے بعد کھنڈر میں تبدیل
کراچی کی تباہی قومی مسئلہ بن چکی،بارشوں کے بعدگٹربہنے ، کچرے ،کیچڑاور غلاظت سے شہر میں تعفن پھیلنے لگا ،آنکھوں ، جلد ، پیٹ ،ڈائریا ، ڈینگی سمیت دیگر امراض پھوٹ پڑے
پاکستان کا معاشی حب اورروشنیوں کا شہر کراچی مون سون کی بارشوں کے بعد کھنڈر میں تبدیل ہوگیا۔ پہلے سے تباہ حال گلیوں، سڑکوں اور اہم شاہراہوں کی حالت مزید بدتر ہوگئی ہے۔اہم شاہراہوں اور سرکاری اداروں سے متصل سڑکیں، ہاﺅسنگ سوسائٹیاں، مارکیٹیں، کھیل کے میدان کھنڈر ات کامنظر پیش کر رہے ہیں،بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوبنے والی گلیوں ،سڑکوں ، میدانوں اور قبرستانوں سے پانی خود اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل تو گیا ہے لیکن وہاں کیچڑ اور غلاظت آج بھی موجود ہے جو تعفن پھیلنے کا باعث بن رہا ہے۔ بارشوں کے بعدگٹربہنے ، کچرے ،کیچڑاور غلاظت سے شہر میں تعفن پھیلنے لگا ،آنکھوں ، جلد ، پیٹ ،ڈائریا ، ڈینگی سمیت دیگر امراض پھوٹ پڑے ہیں۔
سندھ حکومت کی نا اہلی و ناقص کارکردگی نے پورے شہر کو کھنڈر اور گندے پانی کے جوہڑ میں تبدیل کردیا ہے۔ بدقسمتی سے اشرافیہ اور بدترین حکمرانوں سب نے مل کر اس ملک کو تباہ کیا ہے، اور سب سے زیادہ تباہ کراچی ہوا ہے جو کبھی سب سے خوب صورت شہر تھا۔ اس شہر کے رکھوالوں نے اس شہر کو رہائش کے قابل بھی نہیں رہنے دیا ہے۔ شہر کی100 اہم سڑکیں اور اہم شاہراہیں ٹوٹ چکی ہیں، ڈسٹرکٹ ساﺅتھ کی 12 سڑکیں، ڈسٹرکٹ سٹی کی 10، ڈسٹرکٹ سینٹرل کی 30، ڈسٹرکٹ ایسٹ کی 14، کورنگی کی 12، ڈسٹرکٹ ویسٹ کی 10 اور ڈسٹرکٹ ملیر کی 12 سڑکوں سمیت شہر کی دیگر 145 چھوٹی بڑی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔حالیہ مون سون بارشوں میں 66کروڑ روپے کا بجٹ نالوں کی صفائی کے لیے منظور ہوا، 1.2 ارب روپے اس کے علاوہ مینٹی نینس کے نام پر مختص کیے گئے تھے، لیکن اس میں سے سندھ حکومت نے سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے شہر میں کتنا لگایا وہ اس کی سڑکیں اور تباہ حال انفرا اسٹرکچر چیخ چیخ کر بول رہا ہے۔ شہر میں اس وقت تعفن پھیل رہا ہے، گٹر بہہ رہے ہیں، ڈی ایچ اے سے سرجانی تک تمام ہی علاقے گندگی میں لتھڑے ہوئے ہیں، شہر میں جرائم بڑھ گئے ہیں، آئے روز قتل کی وارداتیں ہورہی ہیں، ڈاکو جب چاہتے ہیں کسی کو نشانہ بنادیتے ہیں۔ جگہ جگہ آج بھی گندا پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے گاہک دکانوں اور بازاروں کا رخ کرنے سے گریزاں ہیں۔
اس وقت کراچی کا ایک اور سب سے بڑا مسئلہ دکان داروں اور خوردہ فروشوں (Retailers)سے کے الیکٹرک کے ذریعے بجلی کے بلوں میں ظالمانہ اور جبری ٹیکس کی وصولی ہے، جس کی وجہ سے تاجر پریشان ہیں۔ اس وقت تاجر و شہری دونوں اس وقت سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی کے لوگ اس وقت چیخ اور چلّا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کسی خاص منصوبے کے تحت انہیں خراب صورت حال میں رکھا ہوا ہے۔کراچی کے تاجروں نے کے الیکٹرک ہیڈ آفس گذری پر احتجاج کیا جس میں شہر بھر کی تاجر تنظیموں و مارکیٹ ایسوسی ایشنز کے رہنماﺅں اور نمائندوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی کیمپ سے آل پاکستان آرگنائزیشن آف اسمال ٹریڈرز اینڈ کاٹیج انڈسٹری کراچی کے صدر محمود حامد، آل کراچی تاجر اتحاد کے چئیرمین عتیق میر، لائٹ ہاوس مارکیٹ ایسوسی ایشن کے رہنما حکیم شاہ، آرام باغ مارکیٹ کے رہنما دلشاد بخاری، بولٹن مارکیٹ کے صدر محمد شریف، صدر کو آپریٹو مارکیٹ کے رہنما اسلم خان،کراچی اسپورٹس مارکیٹ کے صدر سلیم ملک، آرام باغ ٹریڈ ایسوسی ایشن کے نائب صدر محمد آصف، سعید آباد ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر، اورنگی ٹریڈ ایسوسی ایشن کے صدر عبداللہ بٹرا، لیاقت آباد ٹریڈرز الائنس کے رہنما بابر خان بنگش، حیدری مارکیٹ کے سید اختر شاہ، اسمال ٹریڈرز کے نائب صدر نوید احمد، تاجر رہنما حفیظ شیخ و دیگر نے بھی خطاب کیا۔ تاجروں نے بجلی کے بل ہاتھوں میں اٹھاکر احتجاج کیا۔ تاجروں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور بینر اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا ”کے الیکٹرک کے بلوں میں تاجروں سے ناجائز ریٹیلر ٹیکس نامنظور، بجلی کے بلوں میں غنڈہ ٹیکس نامنظور، بجلی کے بلوں میں ایف بی آر کی مداخلت نامنظور، ایف بی آر کے الیکٹرک گٹھ جوڑ نامنظور“۔ اسی طرح حیدری مارکیٹ ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کے تحت کبوتر چوک حیدری پر سیکڑوں دکان داروں نے بجلی کے بلوں میں جبری ریٹیلرز سیلز ٹیکس کی وصولی کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا، بعد ازاں دکان داروں نے کبوتر چوک سے کے الیکٹرک آفس نارتھ ناظم آباد بلاک H تک احتجاجی مارچ کیا، اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور مطالبہ کیا کہ کے الیکٹرک بجلی کے بلوں سے 6ہزار روپے سیلز ٹیکس فی الفور ختم کرے اور تاجروں کو نئے بل جاری کرے، بصورتِ دیگر تاجر بجلی کے بل ادا نہیں کریں گے۔ کراچی کے عوام بدترین حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، لوگوں کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں، ایک عام صارف سے لے کر دکان دار تک ،سب پریشان ہیں، سندھ حکومت کی نااہلی و ناقص کارکردگی نے پورے شہر کو کھنڈر اور گندے پانی کے تالاب میں تبدیل کردیا ہے۔
کراچی کی تباہی قومی مسئلہ بن چکا ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو صنعتی و اقتصادی دارالحکومت بھی تصور کیا جاتا ہے، لیکن شہریوں میں یہ احساس کیوں ہے کہ اس شہر کا کوئی والی وارث نہیں ہے؟ اس شہر کا انتظامی ڈھانچہ جس طرح تباہ ہوا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ کراچی کی اہمیت کئی زاویوں سے ہے۔ یہ شہر پاکستان کا پہلا دارالحکومت تھا جسے بانیِ پاکستان کی جائے پیدائش ہونے کا فخر بھی حاصل ہے۔ یہ شہر قدرتی بندرگاہ ہونے کی حیثیت سے عالمی تجارتی سمندری راہداری پر بھی واقع ہے۔ اسی کے ساتھ تزویراتی اہمیت یہ بھی رہی ہے کہ یہ جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے۔کراچی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ عالم اسلام کے چند بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ اس شہر کے باشندوں کا ملّت کے ساتھ رابطہ اہم خصوصیت ہے جدید صنعتی و تجارتی شہر ہونے کے باوجود اس شہر کا اصل مزاج مذہبی ہے۔ اس شہر کی مذہبی اور دینی شناخت عالمی سامراجی طاقتوں، ان کے ذہنی غلاموں اور مفاداتی آلہ کاروں کو ہمیشہ ناگوار رہی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ دشمن تو دشمنی کرتا ہے، دوستوں نے اور خود اپنوں نے اس شہر کو کیوں تباہ کیا ہے؟ اس شہر نے کتنے ادارے بنائے، جو بعد میں تباہ کردیے گئے۔ سب سے بڑی سازش جو اپنوں نے کی وہ اس شہر کی سیاسی بیداری کی شناخت کا خاتمہ ہے۔ اس شہر کو نظرانداز کرنے کا پہلا مظاہرہ اس وقت ہوا جب کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان براہِ راست رابطے کا ذریعہ ختم ہوگیا۔اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ کراچی سے دارالحکومت کی منتقلی کے فیصلے کے پیچھے امریکی مشیر تھے جن کے خیال میں کراچی کے بیدار مغز شہری اسلام دشمن، عوام دشمن حکومتی اقدامات اور فیصلوں کو نظرانداز نہیں کرسکیں گے۔ کراچی اپنے ملّی کردار کی وجہ سے عالم اسلام کے مظلوم مسلمانوں کی آواز بھی بنتا رہا ہے۔ اس شہر کے ساتھ سب سے بڑا ظلم اس وقت ہوا جب اس شہر کے اپنے لوگوں نے دشمنوں کے ایما پر نظریاتی اور اسلامی شناخت کو نسلی شناخت میں تبدیل کردیا۔ ملک و ملت کے دشمنوں کا تو کام آسان ہوگیا اور شہر کی حقیقی شناخت گم ہوگئی، لیکن اس کی قیمت بہت بڑی ادا کرنی پڑی۔ وہ شہر جو پاکستان کا سب سے تعلیم یافتہ شہر تھا، جسے روشنیوں کا شہر کہا جاتا تھا وہ تاریکی میں ڈوب گیا۔ دہشت گردی، بھتا خوری، بوری بند لاشیں، اسٹریٹ کرائم شہر کی شناخت بن گئے، یہاں تک کہ بلدیاتی ڈھانچہ بھی منہدم ہوگیا جس کی بنیاد پر ایک شہر کھڑا ہوتا ہے۔ صرف ایک بارش نے یہ بتادیا کہ نکاسیِ آب کا نظام تک منہدم ہوچکا ہے۔ اس تباہی و بربادی کے بعد معلوم ہوا کہ اب کراچی میں کوئی نظام بھی موجود نہیں ہے۔ اب کراچی کے بنیادی شہری ڈھانچے کی تعمیر ہی سب سے بڑا قومی مسئلہ بن گیا ہے، اب یہ آواز ہر سطح پر گونج رہی ہے کہ اس شہر کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔ اس شہر کا المیہ ہی یہ ہے کہ اسے کسی بھی سیاسی جماعت اور حکومت نے اپنا نہیں سمجھا اور اس کے ساتھ ظلم ہوتا رہا۔ اس وقت شہر میں جہاں فوری ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے وہاں بڑی تبدیلی کی ضرورت بھی ہے اور یہ تبدیلی فوری بلدیاتی انتخابات کے ذریعے ہی آسکتی ہے، لیکن اس ضمن میں یہ خبریں بار بار ادھرآدھر سے آرہی ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شہر کے لوگوں کو بلدیاتی قیادت سے محروم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ کراچی کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا اور کراچی بڑے انتشار کی طرف بڑھے گا جس کا خمیازہ پورے ملک کو بھگتنا ہوگا۔