بیجنگ۔,( نمائندہ خصوصی):چین میں پاکستان کے سفارتخانے نے گزشتہ ہفتے بیجنگ میں واقع عظیم دیوارِ چین کے بادالنگ حصے میں’’ پاک۔چائنا فیشن شو‘‘ کا انعقاد کیاجو اس بات کی یاد میں منایا گیا کہ60 برس قبل پاکستانی کی معزز شخصیت نے پہلی بار عظیم دیوار کا دورہ کیا تھا۔اس موقع پر پاکستانی اور چینی ڈیزائنرز نے مشترکہ طور پر تیار کردہ ملبوسات کے مجموعے پیش کیےجن میں دونوں ممالک کی روایتی اور جدید ثقافتی جھلک نمایاں تھی۔ چین میں مقیم ایک پاکستانی ڈیزائنر کے زیورات کے
مجموعے کو بھی پیش کیا گیا۔ پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے گلوبل ٹائمز کو خصوصی انٹرویو میں کہا کہ یہ شو نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان 60 سالہ دوستی کا جشن ہے بلکہ ثقافتی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز بھی ہے۔ان کے مطابق عظیم دیوارِ چین جو تاریخی شاہراہِ ریشم کی علامت ہے اس اشتراک کو منانے کے لیے ایک نہایت موزوں مقام ہے، کیونکہ یہ "تہذیب و تمدن اور تعلق کی زندہ روح” کی نمائندگی کرتی ہے۔پاکستانی سفیر خلیل ہاشمی نے زور دیا کہ پاکستانی تخلیقی صلاحیت اور چینی فیشن مارکیٹ کا یہ حسین امتزاج دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور تجارتی تعلقات کو مزید مستحکم کرے گا اور مشترکہ مستقبل کے لیے نئے راستے کھولے گا،پاکستان اور چین نے عظیم دیوارِ چین کے تاریخی دورے کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع
پر ثقافتی دوستی اور فنی تعاون کا ایک شاندار مظاہرہ پیش کیا، ایک دلکش فیشن شو کے ذریعے جس کا عنوان تھا “سلک روڈ ایلیگنس دو قومیں، ایک رن وے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سفیر خلیل ہاشمی نے عظیم دیوارِ چین کو استقامت اور عظمت کی علامت قرار دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کی یہاں موجودگی محض ایک رسمی دورہ نہیں بلکہ ایک شراکت داری ہے جو پاکستان کی روح کا ایک حصہ چین کی پائیدار روح کے ساتھ ہم آہنگ کر رہی ہے۔پاکستانی سفیر نے فیشن شو کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تقریب اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی ڈیزائن محض روایت تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک متحرک قوت ہے جو ورثے کو عالمی سطح پر نئے انداز میں پیش کر رہی ہے۔انہوں نے دونوں ممالک کے تاریخی تعلق پر زور دیتے ہوئے کہا کہ قدیم شاہراہِ ریشم صرف ریشم اور مصالحوں کی تجارت کا راستہ نہیں تھی بلکہ یہ خیالات، فن اور جدّت کا ذریعہ بھی
تھی۔آج ہم اسی تبادلے کو ازسرِنو زندہ کر رہے ہیں ،دو اقوام کا جشن مناتے ہوئے جو ایک مشترکہ تاریخ اور روشن مستقبل کے ساتھ، ایک ہی رن وے پر آگے بڑھ رہی ہیں۔انہوں نے گلوبل ٹائمز کے ساتھ گفتگو میں کہا کہ فیشن کو ایک ذریعہ بنا کر تبادلے کی یہ منفرد صورت چین اور پاکستان کے درمیان عوامی روابط کو مزید مضبوط بنا سکتی ہے۔سفیر خلیل ہاشمی نے کہا کہ اس تبادلے کی بنیادی قدروں میں سے ایک ہمدردی ہے ایک دوسرے کے لیے ہمدردی، لیکن فن اور فنکاروں کے لیے بھی کیونکہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور تصوراتی قوت کے ذریعے لوگوں کے لیے خوشی پیدا کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہی وہ بنیادی قدر ہے جسے ہم فروغ دینا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عظیم دیوارِ چین ملک کی ایک علامتی نشانی ہے۔میرا خیال ہے کہ اس موقع کی ساٹھویں سالگرہ ہمیں نہ صرف اپنی دوستی کے ماضی کی طرف دیکھنے بلکہ مستقبل کی طرف بڑھنے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔سفیر ہاشمی کے مطابق فیشن شو کے انعقاد سےہم نے دونوں ممالک کی کمیونٹیز کو قریب لایا ہے۔ اب وہ یہ سیکھ
سکتے ہیں کہ ہمارے فنکار اپنے ملبوسات کس طرح تیار کرتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی جان سکتے ہیں کہ چینی ڈیزائنرز یہ کام کس انداز میں کرتے ہیں۔جب سفیر سے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلوں کے فروغ کے بارے میں پوچھا گیا جو سرکاری تعاون سے آگے بڑھ کر عوامی سطح پر گہری ہم آہنگی پیدا کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے عزائم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تبادلہ اور رابطہ دو طرفہ عمل ہے۔ ہم نے پہلا قدم اٹھایا ہے۔ہمارے ڈیزائنرز چین آئے اور اپنا کام پیش کیا۔ ہم یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں گے کہ چینی ڈیزائنرز پاکستان آئیں اور اپنی مصنوعات اور فیشن کا مظاہرہ کریں۔انہوں نے کہا کہ سفارت خانہ ایک پل، رابطہ کار، اور محرک کے طور پر فیشن انڈسٹریز، ڈیزائنرز، اور فنکاروں کے درمیان عوامی تبادلوں کو فروغ دیتا رہے گا۔ہم اپنے کردار کو اسی طرح دیکھتے ہیں اور ثقافتی دائرے کے اندر دوسرے ذرائع تلاش کرتے رہیں گے تاکہ اس فروغ کو جاری رکھ سکیں،حالیہ مہینوں میں سفارت خانے نے مختلف ثقافتی میلوں کا آغاز کیا ہے جن میں فوڈ فیسٹیول اور آموں کا میلہ شامل ہیں۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے سفیر خلیل ہاشمی نے فنون لطیفہ کے کئی دیگر پہلوؤں کا ذکر کیا جیسے کہ مصوری، خطاطی، شاعری، ادب، مزاح، ڈرامے اور فلمیں۔انہوں نے کہا کہ فن اور ثقافت کی اتنی ساری صورتیں ہیں کہ ہم اس تعلق کے اس پہلو کو فروغ دینے کے لیے مزید محنت کرنے اور اپنی بھرپور کوشش کرنے کے خواہاں ہیں۔پاکستانی ڈیزائنر معظم عباسی نے گلوبل ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ روایت کو زندہ رکھنا اور صارفین کو کپڑے اور روایتی و جدید عناصر کے امتزاج کے بارے میں آگاہ کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیشن کو عملی، تخلیقی اور ماحول دوست ہونا چاہیے۔فیشن شو کے کیوریٹر عدنان انصاری نے بتایا کہ چین جانا اور عظیم دیوار چین دیکھنا ان کی خواہشات کی فہرست میں شامل ہے۔انہوں نے اس شو کو اپنی کامیابیوں میں ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیشن شو فیشن، جنون اور تخیل کا امتزاج تھا۔پاکستانی ڈیزائنر سید محمد رضواللہ نے بتایا کہ اس فیشن شو پر کام کرنا ان کے لیے ایک شاندار تجربہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے چین بہت پسند ہےمجھے وہاں کے لوگ اور ثقافت بہت پسند ہیں۔رضواللہ نے بتایا کہ وہ پہلے ہی اپنے اگلے فیشن ڈیزائن میں چینی عناصر کو شامل کرنا شروع کر چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلے ہی ایک کلیکشن کے خاکے بنانا شروع کر دیے ہیں جس کا نام ہے ’’ایک ہزار کرینوں کی کہانی‘‘۔ میں چینی لباس چی پاؤ ایک تنگ لباس جس کی اونچی گردن اور کٹی ہوئی اسکرٹ ہوتی ہے سے بھی بہت متاثر ہوں۔ان کے نزدیک، فیشن ایک عالمی زبان ہے اور یہ رابطے کا ایک خوبصورت ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مختلف ثقافتوں کو ملانے میں بہت لطف آتا ہے اور چین میں پیش کیا گیا ہمارا شو مشرق و مغرب کے امتزاج کی ایک مثال تھا۔
