تحریر: محمود شام
ایک طرف ہمارے زر مبادلہ کے کم ہوتے ذخائر ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے چھ کروڑ مظلوم پاکستانی مائیں، بہنیں، بزرگ، بیٹے، بیٹیاں، پوتے، پوتیاں، نواسے، نواسیاں ہیں۔ کئی ہزار ارب روپے کے قرضے ہیں۔ ہر وقت آپس میں لڑتے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرتے سیاسی رہنما ہیں۔ اسمبلیوں کا بائیکاٹ کرتے قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرتے سینیٹرز ہیں۔ اچھی خاصی چلتی پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے والے مقبول عوامی لیڈر ہیں۔ کئی گنا مہنگائی کا سامنا کرتے غریب عوام ہیں۔
ہر طرف سے مایوسیوں کی یلغار ہے۔ اپنی معاشی نجات کیلئے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈز سے امید لگائے وزارت خزانہ ہے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ سمندر۔ دریائوں۔ سر سبز وادیوں۔ زر اگلتی زمینوں۔ اپنے سینے میں سونا تانبا چھپائے پہاڑوں کی طرف دیکھنے اور رب کی نعمتوں سے استفادہ کرنے کی عادت ہی نہیں رہی۔ ہم غیروں سے کہتے ہیں۔ غیروں کی سنتے ہیں۔ ہمارے قادر و عادل نے ہمارے تمام مسائل کے حل کے سرچشمے ہماری عظیم مملکت کی حدود میں ہی عنایت کئے ہوئے ہیں لیکن ہم اپنی مالی اعانت کیلئے واشنگٹن میں عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈز کے دروازوں پر کشکول لئے پھرتے ہیں۔ کبھی بیجنگ میں کاسہ لے کر دوستوں سے مدد مانگتے ہیں۔ کبھی ریاض میں حرمین الشریفین کے پاسبان کے آگے دست سوال دراز کرتے ہیں۔ مملکت خداداد پاکستان کے ریگ زار۔ میدان۔ میلوں میل لمبے ساحل۔ 200 کلو میٹر لمبا سمندر اپنی تہوں میں ہمارے لئے بہت سی نعمتیں لئےہمارا انتظار کرتا ہے۔ ہم وہاںجھانکتے تک نہیں ہیں۔
لاکھوں ڈالر خرچ کرکے ہم دیار غیر کا سفر کرتے ہیں۔ مہنگے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں۔ یہاں بلوچستان کے بنجر پہاڑوں میں۔ پنجاب کے کھلے میدانوں میں۔ سندھ کے ریت کے ٹیلوں میں۔ کے پی کے کے سرسبز کوہساروں میں ہمارے رب نے ہماری بقا کیلئے جو انواع و اقسام کی نعمتیں فراہم کر رکھی ہیں۔ ہم ان پر بھروسہ ہی نہیں کرتے۔ اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔ یہ آیات ہم صرف تلاوت کرتے ہیں۔ ان کے معانی تک نہیں جاننا چاہتے۔ ہم معانی تلاش کرتے ہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹس کے آئی ایم ایف کے معاہدوں کے۔ مغربی اخبارات کے تجزیوں کے۔حیرت ہے۔ اس قوم پر جس کے پہاڑوں میں قدرت کی طرف سے اتارا ہوا سونا ہمارا انتظار کررہا ہے۔ تانبا بے چین ہے لیکن 75سال سے ہمیں اس نعمت غیر مترقبہ کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ ہمیں غیر ملکی آقائوں نے عالمی بینکوں سے عالمی مالیاتی اداروں پر انحصار کی عادت ڈال دی ہے۔ حکومتیں سیاسی ہوں یا فوجی۔ منتخب ہوں یا غیر منتخب۔ ہمارے وزیر خزانہ کی دوڑ آئی ایم ایف تک ہوتی ہے۔ صرف حکمراں ہی نہیں۔ہمارے اقتصادی ماہرین۔ ہمارے پر و فیسرز ۔ بینکرز۔ میڈیا مالکان۔ ایڈیٹرز۔ تجزیہ کار بھی اپنی بیماریوں کا علاج ان عالمی اداروں میں ہی تجویز کرتے ہیں۔ یہ سارے ادارے سامراج نے اپنے سابقہ غلاموں کو ذہنی اور معاشی طور پر محتاج رکھنے کیلئے قائم کئے ہیں۔ ہمارے عظیم دوست چین نے ثابت کیا ہے کہ انسان ان اداروں کا مرہون منت بنے بغیر بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔
پاکستان کے 22کروڑ جفاکش عوام کیلئے سب سے اہم خبر تو یہ ہونی چاہئے تھی کہ چاغی میں واقع سونے کے خزانے پر بیٹھا 5.97 ارب ڈالر جرمانے کا اژدہا ہٹادیا گیا ہے۔ اس خزانے پر پاکستان کسی وقت بھی ’’کھل جا سم سم‘‘ کہہ کر سونا سمیٹنے والا ہے۔ میں تو برسوں سے اپنے ہم وطنوں کوریکوڈک کےغاروں میں جاکر اپنی دولت نکال کر اپنے قرضے اتارنے کا سبق یاد دلاتا رہا ہوں لیکن ہمیں تو عدم اعتماد کی تحریکوں۔ اعتماد کے ووٹوں۔ اسمبلیوں کی تحلیل۔ اسمبلیوں سے استعفوں میں الجھایا جاتا ہے۔ ہمارے حکمراںچاہے اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں۔ وہ کہتے تو ہیں کہ سیاسی استحکام اقتصادی استحکام کے بغیر نہیں آسکتا لیکن وہ اپنے پیروکاروں۔ حامیوں کو جذباتی نعروں میں مصروف رکھتے ہیں۔ ان کا نقطۂ نظر یا ذہنی ساخت اقتصادی نہیں بننے دیتے۔ اب سارے سفارتی۔ سیاسی۔ رشتے۔ عالمی دوستیاں صرف اور صرف معیشت کی بنیاد پر ہیں۔ جو ممالک اقتصادی طور پر مضبوط ہیں۔ وہی سیاسی اور سفارتی طور پر طاقت ور ہیں۔ اب سارے مقابلے تجارتی اور اقتصادی ہیں، ہم اپنی زمینوں سے زرعی اور صنعتی پیداوار حاصل کرنے کی بجائے انہیں قرضے لینے کیلئے گروی رکھتے ہیں۔ سونا اگلنے والی زرعی اراضی پر ہائوسنگ اسکیمیں بنارہے ہیں۔
ہمارے عظیم وطن میں جب ہر نوع کی اراضی ہے۔ پہاڑ۔سطح مرتفع۔ بیلے۔ زرعی مربعے۔ تو ہماری آئندہ نسلوں کو تو ارضیات کی تعلیم حاصل کرنی چاہئے تھی۔ زراعت کی مگر ہمارے ہاں ایم بی اے۔ تمنّائوں کا مرکز بن گیا ہے۔ ساری یونیورسٹیاں بزنس ایجوکیشن پر زور دے رہی ہیں۔ خزانے۔ نعمتیں رکھنے والی زمینوں۔ ریگ زاروں میں جھانکنے کی تربیت نہیں دی جارہی۔ 24گھنٹے فعال۔ متحرک میڈیا۔ ہمیں ان سیاسی رہنمائوں کی آنیاں جانیاں دکھاتا ہے۔ جن کے ذہن بنجر ہیں۔ ان جاگیرداروں کی نقل و حرکت دکھاتا ہے۔ جنہیں اپنی ہزاروں ایکڑ زرخیز زمین کے مزاج سے آشنائی نہیں ہے۔ جنہوں نے اپنی یہ قیمتی زمینیں اپنے منیجروں کے حوالے کر رکھی ہیں۔
12دسمبر 2022۔ ہماری تاریخ کا انتہائی اہم دن ہے۔ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکومت پاکستان اور ببرک کمپنی کے درمیان۔ ریکوڈک کے نئے معاہدے کو قانون کے مطابق قرار دے دیا ہے۔ پاکستان نے عدالت سے ماورا ببرک کمپنی سے مفاہمت کرکے 5.97ارب ڈالر کے جرمانے سے نجات حاصل کرلی ہے۔ یہ کمپنی اب 7بلین ڈالر کی سرمایہ کاری سے دوبارہ کام شروع کرے گی۔ کہا جارہا ہے کہ2027سے سونا تانبا نکلنا شروع ہو جا ئے گا۔ پاکستان کو ان شاء اللہ روزانہ کئی ملین ڈالر کی آمدنی شروع ہوگی۔ ریکوڈک کی پوری مالی حیثیت ایک ٹرلین ڈالر یعنی ایک ہزار ارب ڈالر بتائی جارہی ہے۔ یہاں 20.9 ملین اونس سونا اور 12.3ملین ٹن تانبا ہمارا انتظار کررہا ہے۔
پہلے یہ معاہدہ 1993 میں ہوا تھا لیکن ہماری حکومتوں۔ عدلیہ نے یہ معاہدے منسوخ کئے۔ قریباً 30 سال مقدمے بازی، عالمی اداروں میں قانونی لڑائیوں میں ضائع کردیے گئے۔ چھ ارب ڈالر جرمانہ بھی عائد کروالیا۔ ایک تولہ سونا بھی اس عرصے میں نہ نکالا۔ ان 30 سال میں ہی ہم پر کتنے قرضے چڑھ گئے۔ کتنے کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے۔ کتنے نوجوان بے روزگار رہے۔ کتنی کرپشن ہوئی۔ اب یہ ایک ہزار ڈالر کا اثاثہ ہم سب کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔قوم کے شعور کا بھی۔ ہمارے ماہرین میڈیا کابھی ۔ ریکوڈک پر اتفاق رائے منزل ہونی چاہئے اور جس علاقے کو اللہ تعالیٰ نے یہ نعمت عطا کی ہے۔ وہاں کے لوگوں کو ہم کتنی شہری سہولتیں اور مالی خوشحالی فراہم کریں گے۔؟