سوال انتہائی سادا تھا کہ جب سرخ بچھیا بھی دستیاب ہوگئی تو پھر یہودیوں کو قربانی کرنے اور اپنا ہیکل ثالث تعمیر کرنے میں کیا امر مانع ہے اور اس کا دنیا بھر میں پھیلائی گئی افراتفری سے کیا تعلق ہے ۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قبل چند بنیادی معلومات ۔
سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ صہیونی ہیکل ثالث بیت المقدس کی جگہ پر تعمیر کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے وہ بیت المقدس کو شہید کریں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ ہر صورت میں تابوت سکینہ کا حصول چاہتے ہیں ۔ میں نےدسمبر 2017 میں چار آرٹیکل "بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں ” کے نام سے سپرد قلم کیے تھے ۔ یہ آرٹیکل آپ میری ویب سائیٹ کی آرکائیو پر ملاحظہ کرسکتے ہیں ۔ اس سیریز کے تیسرے آرٹیکل میں تابوت سکینہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر ہے ۔ مختصرا یہ ایک صندوق ہے جو یہودی روایات کے مطابق جنت سے اتارا گیا تھا ۔ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور دیگر انبیاء کے تبرکات موجود ہیں ۔ یہودی روایات کے مطابق اسی تابوت سکینہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی بھی موجود ہے ۔ صہیونیوں کا ماننا ہے کہ دنیا بھر پر حکمرانی کے لیے اور دیدہ و نادیدہ دشمنوں کو قابو میں کرنے کے لیے تابوت سکینہ کا حصول انتہائی ضروری ہے ۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ تابوت سکینہ بیت المقدس کی بنیادوں میں کہیں دفن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بیت المقدس کی بنیادوں میں روز سرنگ لگاتے رہتے ہیں ۔
اسی آرٹیکل "بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں ” کے حصہ چہارم کا ایک اقتباس ۔ ” اس میں سے اہم ترین بات ہیکل ثالث کی تعمیر کے ساتھ خوں ریزی ہے ۔ بائبل کی مختلف آیات کی مدد سے صہیونی خود یہ بات بتاتے ہیں کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں شدید خوں ریزی ہوگی ۔ صہیونی اسے دور فتن سے تعبیر کرتے ہیں جو سات برسوں پر مشتمل ہوگا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کا آغاز ہوتے ہی خوں ریزی کا آغاز ہوجائے گا اور پہلے ساڑھے تین سال میں دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ماری جائے گی ۔ اس کے بعد انسانوں کے مرنے کا دوسرا دور شروع ہوگا جس میں مزید ایک چوتھائی آبادی موت کا شکار ہوگی ۔ موجودہ آبادی کا اندازہ 7 ارب نفوس ہے ۔ اگر صہیونیوں کے منصوبوں کو درست مان لیا جائے تو سات برس میں ساڑھے تین ارب نفوس موت کا شکار ہوجائیں گے ۔ صہیونیوں کے مطابق پہلے مرحلے میں ہونے والی خوں ریزی سے مشرق وسطیٰ ، مشرقی اور وسطی ایشیا اور شمالی افریقا کے ممالک متاثر ہوں گے جبکہ دوسرے مرحلے میں آنے والی موت کی لہر سے عراق میں دریائے فرات سے لے یروشلم تک کی عرب بیلٹ متاثر ہوگی ۔ صہیونی اس خوں ریزی کے آغاز کا بھی ذکر کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے دور فتن کا آغاز اسرائیل کی پہاڑیوں پر ایک روزہ جنگ سے ہوگا جس میں روس، ترکی ، عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک جمع ہوکر اسرائیل پر چڑھائی کریں گے جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد مارے جائیں گے ۔”
ہیکل ثالث کی تعمیر کے آغاز کے ساتھ ہی یہ سب کچھ ہوگا یا نہیں ، یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر صہیونی یا ان کے شیطانی آقا ہیکل ثالث کی تعمیر میں ہونے والی مزاحمت کو کم از کم کرنا چاہتے ہیں ۔ انہیں سب سے زیادہ خوف یورپ سے ہی ہے ۔ مسلمانوں سے زیادہ عیسائی ان کے سامنے مزاحم ہورہے ہیں ۔ عراق پر حملے کے خلاف مسلم امہ میں جو احتجاج ہوا وہ یورپ میں ہونے والے احتجاج کا عشر عشیر بھی نہیں تھا ۔ یورپ کو قابو کرنے کے لیے یوکرین کی جنگ چھیڑ دی گئی ۔ اس وقت گندم اور توانائی کے ایک مصنوعی بحران نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ۔ اس کے ساتھ ہی مصنوعی مہنگائی نے بھی مشرق سے لے کر مغرب تک سب کو تارے دکھائے ہوئے ہیں ۔
اب دوبارہ سے پوری دنیا میں ہونے والی افرا تفری کو دیکھیں ۔ پاکستان میں ہی جس طرح سے چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا ہوا ہے وہ قابل غور ہے ۔ مہسا امینی کے بعد سے جس طرح ایران کا بازو مروڑا ہوا ہے ، سعودی عرب میں جس طرح سے عوامی آواز کو دبایا ہوا ہے ، مشرق وسطیٰ اور ملحقہ ممالک میں جس طرح اسرائیل کو خوش آمدید کہا جارہا ہے اور اس کےلیے فرش راہ ہوئے جارہے ہیں ۔ امریکا میں جس طرح سے وسط مدتی انتخابات کے بعد معلق پارلیمنٹ وجود میں لائی گئی ہے اور ان سب سے بڑھ کر پوری دنیا میں (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم ) کٹھ پتلیوں کی نورا کشتی جاری ہے ۔ ان سب نکتوں کو جوڑنے کے بعد جو تصویر بنتی ہے ، وہ یہی ہے کہ ہیکل ثالث کی تعمیر کے لیے بیت المقدس کی شہادت کے موقع پر متوقع مزاحمت کرنے والے لوگوں کے ہاتھ پیر باندھ کر رکھے جائیں ۔
حالات پر گہری نگاہ رکھیں اور اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے ہشیار رہیں اور اپنے پاس والوں کو خبردار رکھیں