تیسری اور آخری قسط
تحریر:نذیر لغار
کراچی کی رسم الخط کمیٹی نے جو سفارشات مرتب کی تھیں۔اسے باقاعدہ کتابچہ کی صورت میں مرتب کیا تھا۔برادرم اسلم رسول پوری کے پاس وہ کتابچہ موجود ہے اور انہوں نے لگ بھگ 44سال پرانی یہ دستاویز مجھے واٹس اپ پر بھجوادی ہے۔میں ان کا بہت شکرگزار ہوں۔اس رسم الخط کمیٹی کے ارکان میں ملک محمداکبر، محمدشفیع محمدی، بشیراحمد ملک، میاں غیاث الدین، قاری نورحسین اور الہی بخش جروار شامل تھے۔بعدازاں اس رپورٹ اور دستاویز کی منظوری مرکزی کمیٹی نے دی تھی۔اور اس کمیٹی کے ارکان کے نام میں نے درج کردیئے ہیں۔
ذکر ملتان میں رسم الخط طے کرنے والی کمیٹی کے اجلاس کا چل رہاتھا۔ اس اجلاس میں کراچی کی تجاویز کو من وعن مان لیا گیاجس کے مطابق ب، ج، ڈ، گ کے نیچے اوپرنیچے دونقطے لگانے سے وہ صوتی مخرج نکلتا تھا جو سندھی اور سرائیکی کے علاوہ اور کسی زبان میں ادا نہیں ہوسکتا۔سندھی میں ان الفاظ کی ادائیگی مندرجہ ذیل حروف سے ہوتی ہے۔
ٻ،ڄ، ڏ، ڳ ، ڻ
سندھی میں دیگر دو صوتیات کیلئے بھی الگ حروف ڃ اور ڱ بھى ہیں مگر سرائیکی لکھنے والے ان الگ حروف کی جگہ پر نون غنہ سے کام نکال لیتے ہیں۔اب آتے ہیں احسن واگھا کے رخنے کی جانب، انہوں نے بالکل آخر میں کہا کہ اگر یہ اجلاس ہر اضافی حرف کے نیچے دونقطے لگانے کا فارمولا اختیار کر رہا ہے تو بھر ن میں دو نقطے لگا گر سندھی ڻ کامتبادل بنا کیا جائے۔اس تجویز کے بارے میں ہمیں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ شمیم اشرف ملک اور نجم حسین سید کی شرارت تھی جس میں احسن واگھا کو ایک آلہ کے طور پر استعمال کیاگیا۔ نجم حسین سید پنجابی شاعری میں ڻ کے متبادل کے طور پر ن میں دونقطے ڈال کر لکھتے تھے اور احسن واگھا انہی کی ہدایات کے تحت ہی یہ تجویز لائے تھے۔مگر چونکہ اصل حقیقت سے سب لوگ لاعلم تھے اس لئے اس تجویز کو مان لیا گیا۔اس تجویز کے منظرعام آتے ہی سب سے اسلم رسول پوری نے شدید احتجاج کیا اور اس اجلاس کی آخری سفارش کو مسترد کرنے کی مہم چلائی۔میرے کراچی واپس پہنچتے ہی اسلم رسول پوری کا خط موصول ہوا۔ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ اسلم رسول پوری کے احتجاج کے نتیجے میں کراچی کی تجاویز اصل صورت میں بحال ہورہی تھیں۔اس ضمن میں شفیع محمدی نے کراچی کی تنظیموں کا مشترکہ اجلاس بلواکر ایک الگ رپورٹ بنا کراسلم رسول پوری کی کتاب”سرائیکی رسم الخط کی تاریخ” میں شامل کرنے کیلئے بھجوا دی۔
ہم ملتان سے کراچی واپس آئے تو سیاسی صورتحال میں تیزی اورتلخی بڑھ چکی تھی۔جنرل ضیاء نے جس مقصد کیلئے پی این اے کی جماعتوں مسلم لیگ، جمیعت علمائے اسلام، پی ڈی پی اور جماعت اسلامی کو وزارتیں دی تھیں۔وہ مقصد پورا کر لیاگیا تھا۔بھٹو صاحب کو پھانسی دی جا چکی تھی۔چنانچہ یہ سوچ کر ان جماعتوں کو وزارتوں سے الگ کردیا گیا کہ اب نومبر 1979ء میں پی پی پی کو انتخابی عمل سے باہر نکال کرکے الیکشن کرالئے جائیں اور من پسند نتائج حاصل کرکے اقتدار میں پی این اے کی جماعتوں کو شامل کرلیا جائے۔
اس ضمن میں ایک لازمی شرط یہ رکھی گئی کہ کوئی ایسی جماعت الیکشن میں حصہ لینے کی اہل نہیں ہوگی جس نےالیکشن کمیشن سےاپنی باقاعدہ رجسٹریشن نہ کرائی ہو۔اس وقت لاہور ہائیکورٹ کی بھٹو صاحب کو سزائے موت دینے والی فل بنچ کا سربراہ مولوی مشتاق خسین چیف الیکشن کمشنر تھا۔پی پی پی نے اس کے سامنے نہ تو رجسٹریشن کی درخواست دینی تھی اور اس نے اس پارٹی کو رجسٹریشن دینی تھی۔اس کے ساتھ جنرل ضیاء نے الیکشن کرانے، پارٹیوں کی رجسٹریشن اور اور انتخابی شیڈول کا اعلان کردیا۔تمام پارٹیاں دوڑ دور کر رجسٹریشن کرا رہی تھیں،مگر پی پی پی گومگو کی کیفیت میں تھی۔بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیربھٹو قیامت خیزنظربندی اور اسیری سے رہائی پاچکی تھیں۔انہی ایام میں بے نظیر بھٹو نے شفیع محمدی کو بلوایا اور ان سے انتخابات اور پارٹی رجسٹریشن کے بارے میں بات کی اور قطعیت سے کہاکہ ہم پی پی پی کی رجسٹریشن نہیں کروائیں گے۔آپ کوئی متبادل نام سوچ کر رجسٹریشن کروائیں۔
ہم شام کو شفیع محمدی سے ملے تو پارٹی کے ناموں کے بارے میں سوچنا شروع کردیا۔فیصلہ جلد کرنا تھا۔پارٹی کا منشور اور قواعدوضوابط بھی طے کرنے تھے اور پھربے نظیر بھٹو کی منظوری لینے کے بعد اسلام آباد جا کر پارٹی کی رجسٹریشن بھی کرانی تھی۔شفیع محمدی کے گھر پر چند دوستوں کے مابین مشورہ ہورہا تھا۔انہی دنوں افغانستان میں انقلابِ ثور برپا ہواتھا۔یہ انقلاب خلق پارٹی نے برپا کیاتھا۔نئی پارٹی کیلئے خلق پارٹی نام تجویز ہوا مگر شفیع محمدی نے کہا کہ اس سے تو مولوی مشتاق اور ضیاءالحق کو شک ہو جائے گا۔چنانچہ بحث مباحثہ کے بعد یہ طے ہوا کہ پارٹی کا نام خلقِ خدا پارٹی رکھا جائے۔اس فیصلے کے بعد پارٹی کامنشور اور بائی لاز طے کئے گئے اور شفیع محمدی یہ ساری تجاویز لے کر بے نظیر بھٹو کی منظوری لینے 70 کلفٹن چلے گئے۔
بے نظیر بھٹو سے منظوری کرنے کے الگ روز شفیع محمدی 10 یا 12 اکتوبر1979ء کو اسلام آباد روانہ ہوگئے اور اگلے روز خلق خدا پارٹی کی رجسٹریشن کراکے کراچی لوٹ آئے۔جنرل ضیاء کے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ پی پی پی کی ایک متبادل پارٹی کی رجسٹریشن کرائی جاچکی ہے۔جنرل ضیاء نے کاغذاتِ نامزدگی کی منظوری کے امیدواروں کیلئے ایک پارٹی سرٹیفکیٹ کی شرط رکھی تھی جو امیدوار کو اپنی پارٹی کی وابستگی اور انتخابی نشان کی الاٹمنٹ کیلئے پیش کرنا تھا۔بے نظیر بھٹو بہت خوش تھیں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ اب بھی پارٹی کا وفادار سمجھا جا رہا تھا۔شفیع محمدی پیرزادہ کی بے وفائی کو اب بھی اندازے کی غلطی سمجھ رہے تھے اور یوں بھی وہ بےنظیر بھٹو سے پارٹی معاملات پر بات نہیں کیا کرتے تھے۔ ان کیلئے یہی بڑی بات تھی کہ بھٹو خاندان اُن پر بھروسہ کرتا تھا۔ممتاز بھٹو، جتوئی اور پیرزادہ کے بارے میں کارکنوں کے ذہنوں میں بڑے سوالات تھے مگر پارٹی اور قیادت سے ان کی غداری کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
جنرل ضیاء بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔وہ عالمی برادری کے سامنے اپنے انتخابی ڈھونگ کو اپنی سند کے طورپر پیش کرنا چاہتا تھا۔یہ درست ہے کہ جنرل ضیاء نے پی پی پی کی متبادل پارٹی کی رجسٹریشن کی خبر ملنے انتخابات نہیں کرانے تھے۔لیکن اگر انتخابات کا ماحول بن جاتا اور عالمی مانیٹرنگ ٹیمیں بھی ملک میں پہنچ جاتیں تو ملک مشکل میں پھنس سکتا تھا۔بدقسمتی یہ ہوئی کہ پارٹی رجسٹریشن کے ایک دوروز بعد عبدالحفیظ پیرزادہ کی محترمہ بے نظیر بھٹو سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے پارٹی رجسٹریشن کا راز پیرزادہ پر کھول دیا اور ہمیں پھر بہت میں چلا کہ پیرزادہ نے اسی روز راولپنڈی جاکر جنرل ضیاء کو نئی صورتحال سے آگاہ کردیا۔ریڈیو اور ٹی وی سے 16 اکتوبر1979ء کی شام جنرل ضیاء کے قوم سے خطاب کا اعلان کیا گیا۔
میں اور شفیع محمدی اسی روز ڈاکٹر امیراحمد کے گھر کے وسیع لان میں بیٹھے جنرل ضیاء کی تقریر سن رہے تھے۔جنرل ضیاء نے احتساب کی ضرورت کا نعرہ لگا کر انتخابات کے التوا کا اعلان کردیا۔اس اعلان پر اسی روز اسی لمحے ڈاکٹرامیراحمد نے ہم دونوں کے روبرو کہا کہ آج کے دن اور الیکشن کے دن کے درمیان آگ اور خون سمندر حائل ہوگیاہے جو اس تک پہنچے گا وہ الیکشن کی منزل تک پہنچے گا۔اور واقعی اس دن کے بعد سندھ تو ایم آرڈی کی تحریک میں آگ اور خون کے دریا سے گزرا مگر آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ الیکشن آج تک نہیں کرائے جاسکے۔جنرل ضیاء آج بھی الیکشن چوری کرلیاکرتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے سال شفیع محمدی کے گھر میری ایک اور بڑی شخصیت سے ملاقات ہوئی۔ یہ ہمارے عہد کے ایک بہت بڑے سرائیکی شاعر عزیز شاہد تھے۔عزیز شاہد کے بھائی حمید اصغر پہلے سے ہی ہمارے ساتھ تھے۔وہ سرائیکی ادبی، ثقافتی اور سماجی تحریک کے فعال ساتھی تھے ۔وہ اب بھی ہمارے ایک با صلاحیت منتظم ہیں۔عزیز شاہد کے ایک اور چھوٹے بھائی مجید اختر سے بھی ہماری اچھی شناسائی تھی۔پھانسی کا سال کئی لوگوں کی زندگی میں درد لے آیا۔عزیزشاہد درد کی شدت سے اپنے بھائیوں کے پاس آگئے تھے۔ہم نے اس پہلی ملاقات میں عزیز شاہد سے اس وقت کی مشہورنظم نیلامی سنی۔عزیز شاہد میں ایک الگ مضمون کا مقروض ہوں۔اس لئے ان پر الگ لکھوں گا۔
شفیع محمدی سے تعلق کی نصف صدی کو ایک مضمون میں سمیٹنا آسان نہیں۔شفیع محمدی کے بارے میں ایک بات لکھ کر آپ سے فی الحال اجازت چاہوں گا۔شفیع محمدی وکالت کا پیشہ اختیار کرنے کے بعد بھی اپنی آمدنی بڑھانے یا تعلیم سے اپنا تعلق برقرار رکھنے کیلئے بچوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔ایک بات اور وہ سندھ ہائی کورٹ بار میں اپنی رجسٹریشن تک کراچی جیسے شہر میں بائیسکل پر سفر کرتے تھے۔ہم نے بڑے لوگوں کے بارے میں سنا ہی نہیں، ہم نے بڑےلوگ دیکھے بھی ہیں۔مسٹر جسٹس محمد شفیع محمدی ایک بڑے آدمی تھے۔بہت بڑے آدمی تھے۔