تحریر :مختار احمد انصاری
(امریکہ)
زندگی غم اور خوشی کا مجموعہ ہے ‘کہیں پریشانی‘ کہیں غم اور کہیں خوشی یہ سب اس کا حصہ ہے ۔ اگر کہا جائے کہ دنیا ایک اسٹیج ہے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا ۔ انسان زندگی کے اس اسٹیج پر اپنی پرفارمنس دکھاتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ زندگی کا ایک طے شدہ دورانیہ ہے یعنی ہر ایک کا وقت حیات اللہ تعالیٰ نے مقرر کررکھا ہے اور ہر ذی روح کو اپنے مقررہ وقت پر اس فانی دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ میں یہ الفاظ انتہائی بوجھل دل کے ساتھ سپرد قلم کر رہا ہوں کہ ہمارا چھوٹا اور ہر دلعزیز جواں سال بھائی ظفر احمد خان بھی اس دنیا میں اپنا کردار ادا کر کے ہم سے بہت جلد جدا ہو گیا ۔
ظفر احمد خان میرا بہت پیارا اور ہر دلعزیز ماموں زاد بھائی تھا وہ میرے ماموں محمد حنیف خان کا سب سے چھوٹا صاحبزادہ تھا جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ اٹھکیلیاں کرتی تھی ۔ وہ بچپن سے ہی ہنس مکھ تھا اور اپنی خوش مزاجی کی وجہ سے سب کے دل کی دھڑکن‘ آنکھوں کا تارا اور سب کا پیارا تھا ۔
ظفر احمد اپنے پیچھے خوبصورت یادوں اور باتوں کا ایک انبار چھوڑ گیا ۔ ہشاس بشاس اور مسکراہٹوں والا یہ نوجوان کسی بھی مشکل لمحے یا مرحلے میں کبھی پریشان نہیں ہوتا تھا اور ہر مشکل کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتا تھا ۔ وہ ہر بچے‘ نوجوان اور بڑے ‘ بوڑھے سے انتہائی محبت اور عقیدت و احترام کے ساتھ ملتا تھا ۔ اسی وصف کی بدولت وہ جس سے بھی ملتا تھا اسے پہلی ہی ملاقات میں اپنا گرویدہ بنا لیتا تھا ۔
اپنی پرکشش شخصیت اور خوش اخلاقی کی وجہ سے ظفر احمد نے مختصرعرصے میں زندگی کے ہر شعبے میں خاصے تعلقات قائم کیے ۔ اس کے دوستوں اور چاہنے والوں کا حلقہ بہت وسیع تھا جس میں عمر ‘ صنف اور ملکی سرحدوں کی کوئی قید نہیں تھی ۔ اس نے بہت کم وقت میں شعبہ صحافت خصوصاً انگریزی صحافت میں اپنا مقام بنایا اور بڑا نام پیدا کیا ۔ ظفر احمد نے اپنی معروضی خبرنویسی خاص طور پر فیچر رائٹنگ کے ذریعے اپنی ایسی ساکھ بنائی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
میں نے بھی امریکہ آمد سے قبل کراچی میں دشت صحافت میں کافی وقت گزارا ۔ میرے بڑے بھائی آفتاب احمد انصاری شام کے انگریزی اخبار روزنامہ اسٹار سے وابستہ تھے ۔ میں 1980 کی دہائی پاکستان ہیرالڈ لمیٹڈ ( ڈان میڈیا گروپ ) کے روزنامہ حریت سے وابستہ تھا ۔ ریورٹنگ‘ نائٹ و مایٹرنگ ڈیسک سمیت مختلف پوزیشنز میں کام کیا ۔ میں نے حبیب خان غوری ‘ افسر آزر‘ سید ابصار علی ‘ ڈاکٹر توصیف احمد خان‘ تنویر بیگ ‘ ستار جاوید ‘ شریف کمال عثمانی ‘ طاہر حسن خان ‘ طاہر نصیر ‘ زاہد حسین ‘مسرور کمال ‘اے ٹی نظامی‘ فیروز عالم‘ آفاق احمد‘ شہزاد چغتائی ‘عبدالرشید شکور، طاہر حبیب حیدر امام‘ ثنا اللہ‘ رشید خان‘ حیات عزیز نقوی ‘ راحت اللہ خان ‘ افتخار جمیل جعفری و دیگر کے ساتھ کام کیا ۔
میں ہیرالڈ ورکرز یونین اور کراچی پریس کلب کی سرگرمیوں میں بھی بھرپور انداز میں سرگرم رہا ۔ عبدالوہاب میمن ‘ ظفر عباس ‘ مظہرعباس ‘ احسن چوہدری ‘ ایوب جان سرہندی‘ زبیر نذیر خان ‘ نعیم الدین ‘ اسد ابن حسن جیسے نابغہ روزگار صحافی میرے ہم عصروں میں شامل ہیں ۔ میں حریت کی بندش کے بعد لاس اینجلس امریکہ آ گیا تھا جہاں ملازمت کے ساتھ ساتھ صحافتی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں ۔
ظفر احمد خان نے اپنے آبائی شہر کہروڑپکا ( جو ضلع لودھراں کی تحصیل ہے اور پاکستان میں اعلیٰ کوالٹی کی کپاس کی پیداوار کے حوالے سے مشہورہے ) سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر کراچی کا رخت سفر باندھا جہاں اس نے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی ۔ اس کے بعد اپنے بڑے بھائی نصیراحمد سے متاثر ہو کر صحافت کے میدان میں قدم رکھا ۔ ظفر نے اپنے صحافتی کیریئر کا آغاز اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی نیوز نیٹ ورک انٹرنیشنل ( این این آئی ) بطور ایجوکیشن اینڈ ہیلتھ رپورٹر کیا ۔ اس کے بعد اس نے دیگر بیٹس میں بھی کامیابی کے اپنی صلاحیتوں کا اظہارکیا ۔ کرائم ‘ بلدیات ‘ ہیومن رائٹس‘ سپورٹس ‘انوائرمنٹ ‘سیاسی و مذہبی رپورٹنگ میں بھی مہارت حاصل کی ۔ اس نے روزنامہ نئی بات کراچی میں بھی صحافتی فرائض انجام دیئے ۔ تاہم کچھ عرصے بعد ہی ظفر احمد نے انگلش جرنلزم میں طبع آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا ۔ اسے انگلش جرنلزم کی جانب لانے میں سینیئر صحافی قیصر محمود مرحوم کا اہم کردار تھا وہ اس کے مینٹور تھے جنہوں نے اس کی بھرپور رہنمائی کی ۔
ظفر احمد کو انگریزی کے ایک اور نامور سینیئر صحافی اور ہمارے مربی واجہ صدیق بلوچ جو بلوچستان سے نکلنے والے انگریزی اخبار بلوچستان ایکسپریس کے بانی ایڈیٹر تھے کی بھرپور سرپرستی اور شفقت حاصل رہی ۔ ظفر احمد نے بلوچستان ایکسپریس اور آزادی کیلئے رپورٹنگ کی جہاں صدیق بلوچ کی رہنمائی میں اس نے اپنی صلاحیتوں کو مزید نکھارا اور کئی ایسی بڑی خبریں بریک کیں جو بعد میں الیکٹرانک میڈیا میں ٹاک شوزکا موضوع بھی بنیں ۔
ظفراحمد خان نے پاکستان کے دیگر بڑے انگریزی اخبارات ڈان ‘ دی نیوز اور ایکسپریس ٹربیون کے ساتھ ساتھ فرائیڈے ٹائمز‘ سماع انگلش ویب ‘ امریکی نیوز ایجنسی یو پی آئی کے علاوہ کئی غیر ملکی میگزینز اور اخبارات میں بھی مختلف موضوعات پر شاندار فیچرز اور مضامین لکھے۔ اس نے ویب چینل میں بھی کام کیا ۔ ظفر احمد گزشتہ دو برسوں سے مسلسل آگاہی ایوارڈ حاصل کررہا تھا جو اس کی بہترین تحریروں اور صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ پسماندہ ‘ محکوم و مظلوم لوگوں کے مسائل اور انسانی حقوق کو اپنی تحریروں کا موضوع بناتا تھا ۔ اس نے اپنے مضامین اور فیچرز میں تھر اور دور دراز علاقوں کے مسائل کو اجاگر کیا اور ایسے باصلاحیت لوگوں ‘ کھلاڑیوں اور فنکاروں پر بھی لکھا جہنوں نے ملک و قوم کیلئے کارنامے انجام دیئے لیکن وہ کبھی ملکی سطح پر اخبارات کے صفحات کی زینت نہیں بن سکے تھے ۔ان مضامین اور فیچرز کیلئے اس نے ملک کے مختلف علاقوں کا سفر بھی کیا ۔ فیچر رائٹنگ بہت مشکل کام ہے جس میں ظفرت حاصل کی ۔ میں نے بھی اپنے کیریئر کے آغاز میں فیچر رائٹنگ شروع کی تھی لیکن میں اس مشکل اور انتہائی محنت طلب کام کو جاری نہیں رکھ سکا تھا ۔
میں فیس بک پر اس کی تصاویر اور سرگرمیوں کو دیکھتا تھا۔ وہ باقاعدگی کے ساتھ فیس بک پر پریس کلب کی سرگرمیوں کی تصاویر اپ لوڈ کرتا تھا۔ غیر ملکی سفارتکاروں‘ ملک کی سیاسی‘ سماجی رہنماؤں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے علاوہ دوستوں کے اس کی تصاویر کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی کہ اس نوجوان نے بہت کم عرصے میں اپنا ایک بڑا حلقہ بنا لیا ہے۔ پاکستان اور بیرون ملک صحافیوں سے بھی اس کےخاصے روابط تھے ۔
چند سال قبل ظفر احمد خان اسکالر شپ پر امریکی ریاست اوکلاہوما کی اوکلاہوما یونیورسٹی کے گیلارڈ کالج آف جرنلزم میں تربیت کیلئے آیا تھا۔ اس دوران اس نے امریکہ کی کئی ریاستوں کے وزٹس کیے اور امریکی اخبارات اور ٹی وی چینلزکے دفاتر بھی گیا اور وہاں کام کو دیکھا۔ اس دورے میں اس نے امریکہ کے ایک نیشنل ٹیلی ویژن چینل کو انٹرویو بھی دیا تھا جس میں اس نے پاکستانی صحافت ‘ حالات کار اور سیاسی حالات پر گفتگو کی تھی۔ میں نے یہ انٹرویو دیکھا تھا جس میں وہ بہترین تلفظ کے ساتھ بلا جھجھک انگریزی بول رہا تھا جس پر مجھے بڑی خوشی ہوئی ۔
ظفر احمد اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد لاس اینجلس میں میرے گھر آ گیا اور میرے اہل خانہ کے ساتھ اس نے دو ہفتے سے زائد وقت گزارا ۔ اس دوران ہم ہالی وڈ سمیت مختلف مقامات اور ریاستوں میں گھومنے گئے ۔ ظفر احمد کے ساتھ گزرے یہ دن میرے اورمیری فیملی کیلئے زندگی کے انتہائی خوبصورت یادگار دن اور اثاثہ ہیں ۔ میرا بڑا بیٹا وقاص احمد انصاری ظفر سے بہت پیار کرتا تھا اور ظفر بھی اس سے کہیں زیادہ محبوب رکھتا تھا۔ ویسے تو وہ اپنے خاندان کے تمام بچوں سے بہت پیار کرتا تھا لیکن پاکستان سے دور ہونے کی وجہ سے میرے تینوں بیٹوں سے خاص شفقت رکھتا تھا۔ وہ زبردست حس مزاح رکھتا تھا ۔ موقع کی مناسبت سے جملے چست کرتا تھا ۔ اور میرے ساتھ عموماً مذاق کرتا رہتا تھا۔ کراچی سے بھی ویڈیو گفتگو بھی وہ اس سلسلے کو جاری رکھتا تھا۔ وہ عموماً صبح ناشتے کے وقت چائے کے کپ اور کباب کی تصویر واٹس اپ پر بھیجتا تھا ۔
ظفر احمد خان ایک نایاب ہیرا تھا جو اپنے قلم کو استعمال کرتے ہوئے زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھ رہا تھا۔ میں جب چند سال پہلے کراچی گیا تو کراچی پریس کلب میں اپنے کچھ پرانے دوستوں سے ملاقات کی تو وہ سب ہی ظفر احمد کی صلاحیتوں کے معترف تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر توصیف نے مجھ سے کہا تھا کہ بھئی تمہارے خاندان میں یہ چھوٹا یعنی ظفر تم سے اور نصیر سے کہیں آگے جائے گا۔ یہ زبردست کام کر رہا ہے۔ یہ ایسے ایشوز پر لکھتا ہے جن پر قلم نہیں اٹھایا جاتا ۔ واقعی میں ایسے ہی لوگوں کیلئے شاعر نے کہا ہے کہ
”ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم“
پروفیسر توصیف کا یہ کہنا درست تھا کہ ظفر ہم دونوں سے آگے جائے گا اور بلاشبہ صحافتی میدان میں اپنے کام کے حوالے سے اس نے ہم دونوں کو میلوں پیچھے چھوڑ دیا۔ ظفر احمد کو امریکہ آنا تھا ۔ میرے اہل خانہ اسے کئی ماہ سے یہاں آنے کا کہہ رہے تھے اور اس نے میری اہلیہ اور بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ عید الاضحیٰ کے بعد امریکہ آئے گا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور وہ چند روز کی علالت کے بعد 26 اگست 2022 کی صبح ہم سب کو منتظر چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گیا ۔ ظفر احمد خان اب ہم میں نہیں لیکن اس کی یادیں ہمیشہ ہمارے ساتھ جڑی رہیں گی ۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ گھر کے کسی کونے سے اس کی آواز ائے گی اور وہ مجھے شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ کہے گا کہ بھائی جان کباب کھانا ہے تو آ جائیں ۔ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو صبر جمیل عطا فرمائے ( آمین)
آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے جن میں