غزہ لہو لہو ہے ۔ سات اکتوبر سے اب تک کی جو صورتحال ہے ، اس کے بعد سے ہر شخص جاننا چاہتا ہے کہ اب کیا ہوگا۔ ان لوگوں کے علاوہ جن لوگوں نے یہ جنگی تھیٹر سجایا ہے،کسی بھی شخص کے لیے یہ بتانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے کہ کیا ہوگا تاہم موجود شواہد کی بناء پر امکانات پر ضرور بات کی جاسکتی ہے ۔
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے سے قبل کہ غزہ کی جاری صورتحال کے نتائج کیا ہوں گے ۔ ایک اور لفظ صہیون سے آگاہی کہ اس بارے میں جاننے کے لیے دوستوں کا اصرار ہے ۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ صہیونی کون ہیں، کیا صہیونی اور یہودی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا یہ الگ الگ ہیں ۔ یہودیوں کی نسلی اور مسلکی تقسیم کے بارے میں بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ نہیں تو بہت مختصر بھی نہیں ، اپنے گزشتہ آرٹیکل کی سیریز "یہودیوں کا تانا بانا” کے عنوان سے لکھ چکا ہوں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ یہ صہیونی کون ہیں ، ان کے عزائم کیا ہیں اور کیا یہ یہودی ہوتے ہیں ، اگر یہودی ہوتے ہیں تو کیا سارے یہودی صہیونی ہوتے ہیں اور کیا غیر یہودی بھی صہیونی ہوتے ہیں یا نہیں ۔ سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ صہیونی ہیں کون ، صہیون دراصل ایک پہاڑی کا نام ہے جو بیت المقدس میں دیوار براق یا دیوار گریہ سے 850 میٹر دور جنوب مغرب میں مزار داؤد کے پاس واقع ہے ۔ یہیں پر عبرانی بائبل کے مطابق صہیون نام کا شہر داؤد واقع تھا ۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ یہیں پر ہیکل سلیمانی قائم تھا ۔ اسی پہاڑی کو Mount Temple بھی کہا جاتا ہے ۔ تاہم اب لفظ صہیون کا مطلب بدل چکا ہے ۔ پہلے صہیون کو صرف ایک پہاڑی سے ہٹا کر پورے بیت المقدس کے لیے استعمال کیا جانے لگا ، پھر پورے یروشلم کے لیے ، پھر پورے اسرائیل کے لیے اور اب اس لفظ کو Greater Israel یا وسیع تر اسرائیل کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
یہودی مملکت اسرائیل کے قیام کے لیے اس لفظ کا استعمال پہلی مرتبہ آسٹریا کے یہودی صحافی اور مصنف تھیوڈور ہرزل نے 1896 میں اپنے ایک پمفلٹ "یہودیوں کی ریاست ” میں کیا ۔ 1897 میں ہرزل کی کوششوں سے سوئٹزرلینڈ کے شہر باسل میں پہلی یہودی کانگریس منعقد ہوئی جس میں ایک یہودی ریاست کے قیام کے لیے صہیونی تحریک کا قیام عمل میں لایا گیا ۔ ابتدا میں جس طرح صہیون محض ایک پہاڑی کا نام تھا ، اسی طرح سے صہیونی بھی صرف اور صرف یہودی ہوا کرتے تھے ۔ مگر اب صہیونی ہر وہ شخص ہے جو وسیع تر اسرائیل کے قیام سے اتفاق کرتا ہو اور اس کے لیے کوششیں بھی کرتا ہو ۔ یعنی عیسائی ، مسلمان ، بدھ ، ہندو وغیرہ وغیرہ بھی صہیونی ہوسکتے ہیں ۔ بالکل اسی طرح وہ یہودی جو وسیع تر اسرائیل کا مخالف ہے ، صہیونی نہیں کہلائے گا ۔
غزہ کی صورتحال کے بعد کے معاملات کو اگر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ امریکا اور یورپ میں بہت سارے یہودیوں نے اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کی مخالف کی ہے اور اس کے لیے مظاہرے بھی کیے ہیں ۔ اس طرح یہ یہودی صہیونی نہیں ہیں ۔ اس کے مقابلے میں امریکا اور یورپ کے حکمرانوں نے اسرائیل کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ اس کے لیے مادی امداد بھی فراہم کی ہے ۔ یہ سارے لوگ عیسائی ہونے کے باوجود صہیونی ہیں ۔ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہی اپریل 2020 میں ایک شخص مولانا خلیل الرحمٰن نے نیشنل پریس کلب کے سامنے ایک خیمہ لگا کر اسرائیل کے حق میں مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے خیمے پر اسرائیل کا پرچم آویزاں تھا اور وہ اپنا نیا نام ڈیوڈ ایریل بتاتا تھا ۔ یہ ڈیوڈ ایریل ایک مسلم صہیونی تھا ۔ عالمی صہیونی تحریک اب بھی قائم ہے اور گریٹر اسرائیل کے لیے سرگرم عمل ہے ۔
صہیون اور صہیونیت کے بارے میں جاننے کے بعد ہم اس سوال کی طرف آتے ہیں کہ غزہ کی صورتحال کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔
میرا موضوع صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے نیو ورلڈ آرڈر یا ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام ۔ میرے تمام آرٹیکل یا کالم اور کتب اسی پس منظر میں لکھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ کتاب جنگوں کے سوداگر میں اس حوالے سے تفصیل سے لکھا ہے کہ کس طرح ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے لیے شیطانی پیروکار یہودی پہلے بینک آف انگلینڈ کا قیام عمل میں لائے اور بعدازاں انقلابات فرانس ، روس وغیرہ وغیرہ اور امریکا میں سول وار کے ذریعے کس طرح سے دنیا بھر پر قبضہ مکمل کیا ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم انہوں نے کس طرح برپا کیں اور اس کے نتیجے میں کیا کیا مطلوبہ اہداف حاصل کیے ۔
یہ سب کچھ جو ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کے لیے شیطان کے پیروکاروں نے کیا ، اس کے منصوبہ ساز البرٹ پائک نے انیسویں صدی سے ہی اس پر کام شروع کردیا تھا ۔ البرٹ پائیک رپورٹر ، ایڈیٹر ، فوجی ، وکیل، شعلہ بیان مقرر ، قانون ساز ، سب کچھ تھا ۔ وہ فری میسن کی سب سے مضبوط شاخ Scottish Rite of Freemasonry Southern Jurisdiction کا 1859 سے امریکا میں گرینڈ ماسٹر تھا ۔ اس کی کتاب Morals and Dogma فری میسنری کی بائبل کا درجہ رکھتی ہے ۔ یہ کتاب دراصل البرٹ پائک کے خطبات پر مشتمل ہے جو پہلی مرتبہ 1871 میں امریکا میں شائع ہوئی تھی ۔ یہ کتاب امریکا میں اسکاٹش فری میسنری کی شاخ سپریم کونسل the supreme council, thirty third degree کے تحت شائع کی گئی تھی ۔البرٹ پائیک صرف فری میسن کے سب سے اعلیٰ درجے (33ویں ) درجے پر ہی فائز نہیں تھا بلکہ وہ الومیناتی امریکا کا بھی سربراہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ البرٹ پائیک نے جو منصوبہ 1871 میں پیش کیا تھا ، آج کے دور میں ہونے والے واقعات اس کے ہی مطابق ہیں ۔
البرٹ پائیک کے منصوبوں کی روشنی میں آج کے ہونے والے واقعات کو دیکھتے ہیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ غزہ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی کوششوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔