14 اگست کو پاکستان کی آزادی کے 75 سال مکمل ہو جائیں گے۔یوم آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی منانے کے لیے نوجوانوں میں بہت جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ہر سال 14 اگست کے موقع پر پاکستانی لوگ آزادی کاجشن بھر پور انداز میں مناتے ہیں،تیرہ اگست کی رات کو بارہ بجتے ہی کچھ لوگ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر آجائیں گے، رات کو کروڑوں روپے کا بارود ہوا میں پھونک دیا جائے ،کشمیری منتظر رہیں کہ یہ بارود ان کی آزادی کے لیے استعمال ہوگا۔ صبح نماز فجر کے بعد دعاﺅں، پرچم کشائی کی تقریبات، سارا دن جلسے، جلوسوں، مذاکروں و مباحثوں، آتش بازی اور سڑکوں پر خوب ہلا گلاکے مظاہروں کی صورت میں آزادی کا یہ جشن رات گئے بلکہ پوپھٹنے تک جاری رہتا ہے۔ آزادی یقینا اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے
جس کا احساس قدرت نے انسانوں ہی نہیں حیوانوں میں بھی ودیعت کیا ہے چنانچہ آزادی کی اس نعمت کا شکر پاکستان میں بسنے والے ہم بائیس کروڑ انسانوں پر واجب ہے، یوم آزادی پر جشن منانا بھی زندہ دل پاکستانیوں کا حق ہے مگرجشن منانے والوں سے بھی سوال ہے اور یوم آزادی پر بڑے بڑے پیغامات دینے والوں سے بھی سوال ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد یاد ہے؟ کیا ہم واقعی آزاد ہو گئے ہیں؟، جن مقاصد کے حصول کی خاطر ہم نے تحریک آزادی برپا کی تھی، لاکھوں جانوں کی قربانی دی تھی ،اپنی، ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں کی عزتوں اور عصمتوں کو پامال ہوتے دیکھا تھا۔اپنا سب کچھ، گھر بار، مال و متاع اور عزیز و اقارب چھوڑ کر اس پاک خطے کی جانب ہمارے آباءو اجداد نے ہجرت کی تھی کہ ہم اس خطے کو مکمل آزاد فضا میں اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے اور قرآن و سنت کی رہنمائی میں اسے دنیا بھر کے سامنے ایک مثالی اسلامی اور فلاحی ریاست کے نمونہ کی حیثیت سے پیش کریں گے، کیا ہم یہ مقاصد حاصل کر سکے ہیں؟ کیا یہ مملکت واقعی اسلامی و فلاحی مملکت کا نمونہ بن سکی ہے؟
نہیں ہر گز نہیں، گزشتہ پون صدی میں ہم نے اس مملکت خداداد میں سرمایہ دارانہ جمہوریت، سوشلزم اور سول و فوجی آمریت سمیت ہر طرح کے تجربات کئے ہیں لیکن اسلام، قرآن و سنت یا شریعت کو نظام حکومت کے قریب نہیں پھٹکنے دیا یہاں کے سلیم الفطرت اور نیک نہاد لوگوں کی انتھک اور ہمہ پہلو جدوجہد کے نتیجے میں ہماری مجالس قانون ساز نے ”قرار داد مقاصد“ تو منظور کر لی اور پھر نفاذ اسلام کے تقاضوں سے بڑی حد تک ہم آہنگ آئین بھی قوم کو نصیب ہو گیا مگر یہاں عملاً اقتدار پر قابض سرمایا دار و جاگیردار سیاست دانوں اور با اختیار سول و فوجی بیورو کریسی کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں نہ تو کبھی عوام کے حقیقی اور مخلص خدمت گاروں کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے دیا گیا اور نہ ہی شریعت کی روشنی میں قانون سازی کے تقاضوں پر توجہ دی گئی۔نتیجہ یہ ہے کہ آج پون صدی گزرنے کے بعد بھی پاکستان میں انگریز کے مسلط کردہ قوانین رائج ہیں، یہاں کی معاشی اور معاشرتی پالیسیاں عالمی سامراج کے تابع فرمان بین الاقوامی مالیاتی ادارے اور عالمی بنک تیار کرتے اور جبراً ان پر عمل کرواتے ہیں کیونکہ ہم سر سے پاﺅں تک ان کے سودی قرضوں میں جکڑے ہوئے ہیں جن کا بوجھ ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام بھی ہمارے بیرونی آقاﺅں ہی کا تیار کردہ ہے یہاں تک کہ اب یکساں نصاب تعلیم کے نام پر جو کچھ ہماری آئندہ نسلوں کو پڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کا ہمارے قومی اور ملی تقاضوں اور دین و شریعت سے دور کا بھی تعلق نہیں، نصاب اور نظام تعلیم کے ذریعے ہمیں انگریز کے بعد انگریزی کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا ہے حالانکہ بانی پاکستان محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے فوری بعد دو ٹوک الفاظ میں واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کی قومی اور دفتری زبان اُردو ہو گی مگر ان کا ارشاد ہنوز تشنئہ تکمیل ہے۔ مارشل لاءادوار میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تاردپود بکھیر دیے گئے۔ اسلامی کے لفظ پر سرکار کی سرپرستی میں خوب ابہام پھیلایا گیا۔ جمہوریہ تو رہنے نہیں دیا اور اس کے بغیر پاکستان کیا رہتا۔ پاکستان کا مطلب حکمران بن گیا۔ پھر ایک نام نہاد انجینئرڈ حکومتوں کا دور چلا۔ اور اس کو لوٹنے، کھانے اور لٹانے کے طریقے سکھائے گئے۔ اس دور کے سیکھے ہوئے آج کی حکومتوں میں ہیں اور اپنے تجربے کے مطابق ملک کا صفایا کررہے ہیں
14 گست کو نوجوان سڑکوں پر ناچ رہے ہوں گے۔ کیوں کہ اس قوم سے کشمیر، معیشت، قومی سوچ کے ساتھ ساتھ نظریہ بھی چھین لیا گیا ہے۔ جس قوم کے نوجوانوں کو نظریہ ہی معلوم نہ ہو تو وہ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر ہی گھومیں گے۔ اے پاکستان کے شہریوں،آزادی کے متوالو جشن مناﺅ کہ نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہے۔ سرکاری ملازمین کے بارے میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ دنیا میں آپ کے پاس سب سے قیمتی چیز آپ کا ضمیر ہے۔ اور آج اگر کوئی سرکاری افسر ایماندار نکل آئے تو بتانا پڑتا ہے کہ یہ ایماندار افسر ہے یا اسے ملازمت سے نکال کر بتایا جاتا ہے کہ ایمانداری کا انجام یہ ہوتا ہے۔ ان بے ایمان اور رشوت خور سرکاری افسران کا کام صرف عوام کو لوٹنا ہے۔ سرکاری افسران نے اپنی سب سے قیمتی چیز ضمیر کا سودا کرلیا۔ اب وہ مالا مال ہیں۔ کون سا محکمہ بچا ہے جہاں عام آدمی کو اس کا حق ملے۔ یہ سرکار اور سرکاری افسر آج جشن آزادی کے فیتے کاٹ رہے ہوں گے۔ اس قوم کو بجلی سے محروم کردیا گیا یہ اکیس ویں صدی ہے اس قوم کو صحت و صفائی کی سہولتوں سے محروم کردیا گیا۔ لوگ گھروں سے باہر قدم رکھیں تو کیچڑ، گڑھا یا کھلا مین ہول ہے۔ بارش ہوجائے تو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں، ان حالات میں کہا جاتا ہے جشن مناﺅ،کس بات کا جشن منایا جاتا ہے۔ کشمیر چھن جانے کا ،غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون کا جشن،اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں اسلام کو اجنبی بنانے کا جشن۔
اب حکمرانوں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ ملک کو فلاحی مملکت کیسے بنانا ہے۔ عوام کو حقوق کیسے دینے ہیں۔ کشمیر کیسے لینا ہے۔ بھارت کو کیسے سبق سکھانا ہے۔ آزادی کا مطلب اپنا پرچم اور اپنا جغرافیہ ہی نہیں ہوتا۔امریکہ ، آئی ایم ایف اور عالمی بینک کی غلامی سے آزادی بھی ضروری ہے۔ لیکن یہ آزادی ملے گی کیسے؟؟ اس کا راستہ صرف ایک ہے۔ پوری قوم اجتماعی توبہ کرے اپنے آپ کو اللہ اور صرف اللہ کی بندگی میں دے دے پھر ساری غلامیاں ختم ہوجائیں گی۔ یہی آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کا پیغام ہے۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات