کراچی(نمائندہ خصوصی) اکیسویں صدی میں سرائیکی ادب کا بیانیہ مضبوط ہورہا ہے لیکن سرائیکی ادب کے نئے بیانینے کا محور خواجہ غلام فرید ہے۔ اکیسویں صدی بیانےے کی صدی ہے اور سرائیکی بیانیہ اتنا مضبوط ہے کہ وہ اپنی زمین سے جڑی ہوئی ہے۔ ان خیالات کا اظہار سرائیکی زبانوں کے ادیبوں، شاعروں، دانشوروں نے پندرھویں عالمی اردو کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے روز ”اکیسویں صدی میں سرائیکی زبان و ادب“ کے موضوع پر منعقدہ سیشن سے محمد حفیظ خان، نذیر لغاری، سعید خاور، عابدہ بتول، شاہد جتوئی نے خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض سعدیہ شکیل نے سرانجام دےئے۔ سرائیکی زبان کے ناول نویس محمد حفیظ خان نے کہا کہ اکیسویں صدی کے سرائیکی ادب کی اہم بات یہ ہے کہ اب شاعری کے بجائے افسانہ اور ناول میں اضافہ ہورہا ہے۔ گزشتہ بائیس برسوں میں آٹھ ناول سرائیکی زبان میں لکھے گئے ہیں۔ نوجوان سرائیکی ادیبوں کی ایک کھیپ پیدا ہوگئی ہے اب ہم بولنے پوزیشن میں آگئے ہیں۔ نذیر لغاری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی شاعری میں قدیم روایت سرائیکی ذاکر کی صورت میں ملتا ہے واقعہ کربلا کو پوری دنیا میں سرائیکی ذاکر بیان کرتے ہیں۔ یہ سرائیکی زبان کی طاقت ہے۔ سرائیکی زبان میں شائع ہونے والے ناول اپنی سرزمین کی ترجمانی کرتے ہیں۔ عابدہ بتول نے خطاب کرتے ہوئے ماضی میں سرائیکی خواتین اپنے نام چھپا کر اردو میں لکھتی تھیں لیکن اب سرائیکی زبان میں وہ ہی خواتین پی ایچ ڈی، ایم فل کررہی ہیں۔ نئے دور میں بہت ساری سرائیکی خواتین شاندار ادب تخلیق کررہی ہیں۔ سعید خاور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرائیکی وسیب کے بیانےے کی بنیاد کل بھی خواجہ غلام فرید تھا، آج بھی فرید ہے اور آنے والے کل میں بھی سرائیکی بیانیہ فرید ہی رہے گا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سات ہزار زبانوں میں پانچ ہزار زبانیں ختم ہوجائیں گی، پانچ ہزار ثقافتیں مرجائیں گی لیکن میرا ایمان ہے کہ جو دو ہزار زبانیں بچ جائیں گی ان میں سرائیکی ہوگی۔ شاہد جتوئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کے سرائیکی ادیب کو احساس ہے کہ اس سے اس کی شناخت چھینی جارہی ہے اس وجہ سے سرائیکی میں آج بھی مزاحمتی شاعری ہورہی ہے لیکن مزاحمت کوئی نعرہ نہیں ہے مزاحمت مستقل جدوجہد ہے۔ سرائیکی شاعری ہزاروں بروں سے اظہار کا ذرےعہ ہے کیونکہ وہ سرائیکی خطے میں پیوست ہے۔ سرائیکی شاعری اپنی ثقافت، اپنی زمین، اپنے دریا اور اپنے عوام سے جڑی ہوئی ہے۔ اکیسویں صدی نے سرائیکی ادب کے لئے نئے دروازے کھولے ہیں۔ سرائیکی اب مضبوط ہوگا۔