(نیوز روم /امجد عثمانی)
ہم بھی عجب "دو چہرہ لوگ” ہیں…. اعمال ہمارے "برادران یوسف” جیسے ہیں اور مثال ہم انصار مدینہ کے دیتے ہیں…….!!!
تباہ کن سیلاب آدھا ملک بہا لے گیا اور ہماری حزب اقتدار اور حزب اختلاف زبانی جمع خرچ سے متاثرین کو بہلا رہی ہیں……رائیونڈ محل،بلاول ہائوس اور بنی گالہ کے شاہانہ مزاج "سیاسی نیتائوں "کو کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی جیے یا مرے…..بھلا "اشرافیہ” کا "افلاسیہ "سے کیا رشتہ؟؟……کہاں اپنے تئیں "اشرف المخلوقات” اور کہاں بے چارے "حشرات الارض”……؟؟
حیرانی ہوتی ہے کہ ایکڑوں پر محیط محلوں میں اقامت پذیر اور تجوریاں بھرے یہ لوگ کس "منہ” سے ریاست مدینہ تو کبھی انصار مدینہ کی بات کرتے ہیں……..ہاں حکمرانوں نہیں پاکستانی عوام میں یہ جھلک خوب نظر آتی ہے کہ انصار مشکل گھڑی میں ایثار کا استعارہ ہیں…….ہاں اخوت کے بانی جناب ڈاکٹر امجد ثاقب ایسے لوگ مواخات مدینہ کی بات کریں تو جچتی ہے……
اخوت……احساس کو کہتے ہیں…..اور بانٹ کر کھانے کا نام مواخات ہے……
ریاست مدینہ ……مواخات کی بنیاد پر استوار ہوئی……اور انصار مدینہ…. مواخات مدینہ کے علم بردار ٹھہرے………انصار مدینہ اس لیے بھی عالی شان ہیں کہ وہ اصحاب رسول ہیں…….رضی اللہ عنہم
شاعر مشرق نے کہا تھا:
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پیر و جوان بے تاب ہو جائے
علامہ اقبال کے بعد…..ڈاکٹر امجد ثاقب مواخات کا مفہوم خوب سمجھے اور اخوت ایسے مثالی ادارے کی بنیاد رکھ کر جدید دنیا کو حیران کر دیا…..مواخات کی برکات کا مشاہدہ کرنے والے ڈاکٹر امجد کہتے ہیں کہ غربت خیرات نہیں مواخات سے ختم ہوگی…….وہ نوبیل امن پرائز کے لیے نامزد ہو چکے…غالب امکان ہے وہ اس اعزاز کے اہل بھی ٹھہریں گے….
منفرد سیرت نگار جناب نعیم صدیقی نے ہجرت مدینہ کو تاریخ کا بڑا معاشرتی اور معاشی بحران قرار دیا ہے….رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بحران کو مواخات مدینہ کی” معجزانہ پالیسی” سے چشم زدن میں حل کر کے ایک عظیم رہنما ہونے کا ثبوت دیا…….
صدیقی صاحب نے مواخات کے باب میں لکھا:مدینہ کے معاشرہ کا ایک بڑا مسئلہ سینکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ تھا……گھر بار چھوڑ چھاڑ کر مسلسل لوگ اکھڑے چلے آرہے تھے اور چند ہزار کی آبادی رکھنے والی متوسط سی بستی کو انہیں اپنے اندر جذب کرنا تھا……واقعہ یہ ہے اس مسئلے کو،جو تاریخ میں جب بھی پیدا ہوتا ہے،پریشان کن بن جایا کرتا ہے،مدینہ کے معاشرے اور صدر ریاست نے جس کمال حکمت عملی سے حل کیا ،اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملتی….کوئی آرڈی نینس جاری نہیں کیے گئے…..کوئی قانون نہیں ٹھونسے گئے……الاٹ منٹیں نہیں کی گئیں…..مہاجرین کی تعداد معین کرکے کوئی قدغن نہیں لگائی گئی…..کسی جبر سے کام نہیں لیا گیا…..محض ایک اخلاقی اپیل سے اس پرپیچ مسئلے کو چند روز میں حل کرلیا گیا…..سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے ،نظریے اورمقصد کی صحیح معنوں میں ایک نئی برادری پیدا کر دکھائی اور ایک ایک انصاری کے ساتھ ایک ایک مہاجر کا رشتہ قائم کر دیا…..انصار کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے مال،مساکن،باغات اور کھیت آدھوں آدھ بانٹ کر رفقائے مقصد کو دے رہے تھے بلکہ بعض تو دو دو بیویوں میں سے ایک ایک کو طلاق دیکر اپنے دینی بھائیوں کے نکاح میں دینے کوتیارہوگئے……دوسری طرف مہاجرین کی خود داری کا نقشہ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں کھیت یا بازار کا راستہ دکھا دو،ہم تجارت یا مزدوری کرکے پیٹ پال لیں گے…….
ڈاکٹر امجد ثاقب بھی اخوت کی یہی کہانی بیان کرتے ہیں:اخوت کا سارا فلسفہ،اصول اور طریقہ کار،یہ سب ایک تدریجی عمل تھا…..اس تصور کا اصل سرچشمہ مواخات مدینہ کی وہ عظیم روایت ہے جس کا آغاز ساڑھے چودہ سو برس پہلے اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو مکہ سے وطن بدر ہونا پڑا….ہجرت کا سفر اور صعوبتیں…..جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو تہی دامن تھے….مدینہ کے رہائشی انہیں اپنے گھر لے گئے اور کہنے لگے کہ ہمارے پاس جو کچھ ہے…آج سے آدھا آپ کا اور آدھا ہمارا ہے….مواخات کا یہ رشتہ ایک عظیم الشان روایت کا آغاز تھا لیکن ہم نے اسے ایک واقعہ سمجھ کر تاریخ کی کتابوں تک محدود کر دیا….ہم آج اخوت کے ذریعے مواخات کا وہی اصول دہرانا چاہتے ہیں…ہماری دسترس میں اگر دو چپاتیاں ہیں تو ایک یا آدھی چپاتی اس شخص کو دے دیں جو ایک سے بھی محروم ہے…..یہی احساس اخوت کے قیام کی بنیاد بنا…..مذہب سے مستعار لیا گیا یہ اصول ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو مذہب سے دور ہیں…….
مواخات اور کیا ہے؟بس بانٹ کر کھائیے……جب مواخات کی برکت سمجھ میں آجائے تو انسان تو کیا مدینہ کی بلیاں بھی بھوکی نہیں سوتیں…قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ میں نے مسجد نبوی شریف کے دروازے پر جوتوں کے پاکستانی رکھوالے سے پوچھا کہ آپ کے کھانے کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟بولا ایک ولی یہاں بلیوں کے لیے کھانا اکٹھا کرنے پر مامور ہیں……سارا دن سر پر ٹوکری اٹھائے پھرتے ہیں…..جگہ جگہ سے کھانے کے ٹکڑے اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور پھر جب وہ کھانے کے وقت ٹوکری لے کر آتے ہیں تو مدینہ کی ساری بلیاں میائوں میائوں کرتی اکٹھی ہو جاتی ہیں….جس شہر میں بلیوں کا اتنا اچھا انتظام ہے وہاں انسان کیسے بھوکا رہ سکتا ہے؟……مواخات مدینہ کی خوشبو سے مہکتا یہی وہ احساس ہے جس کی روشنی میں ریاست مدینہ تشکیل پاتی ہے………پھر ریاست مدینہ کے سربراہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے بکری کا بچہ بھی پیاسا مر گیا تو میں جوابدہ دہ ہونگا…….
شہباز شریف ،زرداری ہوں یا عمران خان،انہیں کیا علم کہ بھائی چارہ کسے کہتے ہیں….وہی بات کہ اشرافیہ کا افلاسیہ سے کیا رشتہ…..؟؟؟یاد رکھیں کہ کائنات میں مدینہ بھی ایک ہی ہے اور ریاست مدینہ بھی ایک ہی ………جس طرح شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کا بھی کوئی متبادل نہیں…..
انصار مدینہ کون ہیں؟؟؟فتح مکہ کے بعد،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تن من دھن قربان کرنے والے انصار مدینہ کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم ان سے جدا ہو کر اب مکہ والوں میں ہی نہ رہنے لگیں اور وہ اپنی محبوب ہستی کے قرب سے محروم ہو جائیں….اس موقع پر جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار مدینہ سے محبت بھرا خطاب فریایا:خدا کی قسم ایسا نہیں ہے…میں خدا کا بندہ اور رسول ہوں….میں نے خدا کی طرف اور تمہاری طرف ہجرت کی…..اب میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہے….یہ خطبہ سن کر انصار پر رقت طاری ہوگئی…..
جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین و طائف کے معرکے بعد بھی ایک بے نظیر خطبہ دیا:اے گروہ انصار کیا تم کو یہ پسند نہیں کہ لوگ اونٹ اور بکریاں لے جائیں اور تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو لیکر اپنے گھروں کو جائو…..انصار بے اختیار پکار اٹھے کہ ہم کو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم درکار ہیں…….!!!
کہاں وہ نفوس قدسیہ کہاں ہم سیاہ کار…..ہمیں تو مدینہ کی خاک اور انصار مدینہ کا نقش پا ہی مل جائے تو زہے نصیب……!!