تحریر:
ڈاکٹر جمیل احمد خان
ہمارے حالات دن بدن دگرگوں ہوتے جارہے ہیں اور دسمبرکے علاوہ آنے والے دنوں میں عالمی قرضوں اور سود کی ادائیگی کادباؤ بھی بتدریج بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔مختلف اشیاء بشمول ادویات کی ایل سیز کھلنے میں مشکلات درپیش ہیں، آنے والے ایام میں کئی اشیاء کے ساتھ ساتھ ادویات کا بحران بھی پیدا ہونے کوآرہا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال انتہائی پیچیدگی اختیار کرتی جارہی ہے اور اگر اب بھی ہمارے سیاستدان عقل کے ناخن نہیں لیں گے تو پھر ان کا اپنا اور ہمارا کیا ہوگا یہ حکمرانوں کے اذہان میں موجود ہے۔
ہمارے طبقۂ اشرافیہ کے مفادات بیرون ممالک میں ہیں جس کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ انہیں ملک کے حالات سے کوئی سروکار نہیں، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سیاستدانوں کا بڑا طبقہ اگر ابتر ہوتی صورتحال میں پھنس گیا تو ملک کیلئے اس بھنور سے نکلنا مشکل ہوجائیگا۔
داناؤں کی ایک ہی رائے ہے کہ ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کیلئے ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھنا چاہیے ، 5 دسمبر کو ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کے بعد معاشی حالات مزید ابتری کی سمت جانے لگیں گے۔اس قرض کی ادائیگی کے بعد ہمارے پاس تقریباً4 ہفتوں کے اخراجات کی رقوم ہونگی جو یقیناً خطرے کی علامت ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اگر معاشی حالات کو نظر انداز کیا جاتا رہا تو حالات کو کنٹرول کرنا انتہائی مشکل ہوجائے گا۔
معروضاتی حالات کے تناظر میں عمران خان کے رویہ میں لچک قابل تحسین ہے لیکن نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دینگے کا رویہ کسی ایک سیاستدان کیلئے نہیں بلکہ پورے سیاسی و معاشی نظام کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوسکتا ہے، سیاستدان ذاتی و گروہی مفادات کے کھیل سے باہر نہ نکلے تو اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا جس کا خمیازہ سیاستدانوں کو بھی بھگتنا ہوگا۔
مسلم لیگ (ق)، بی اے پی اور ایم کیوایم کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے ، تحریک عدم اعتماد میں ان جماعتوں کے جھکاؤ سے سمت کا تعین کرنا کوئی مشکل نہیں تھا اور ایسے میں مونس الٰہی کے بیان نے شبہات کو یقین میں بدل دیا ہے۔
موجودہ حالات میں مونس الٰہی کی جانب سے اعلانیہ عسکری حمایت کے دعوے کواگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو پنجاب کیلئے بننے والے ماسٹر پلان کو سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں کیونکہ پنجاب میں پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی حکومت کسی اور کی مرہون منت ہے اور اگر عدالت مداخلت نہ کرتی تو شاید آج بھی مسلم لیگ (ن) ہی پنجاب میں حکمران ہوتی۔
عمران خان کے رویے میں نظر آنے والی لچک کوئی اچانک یا انہونی نہیں بلکہ اس کے پسِ پردہ محرکات کو دیکھا جائے تو پرویز خٹک، مونس الٰہی اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے بیانات اور پیغامات نے معاملات کو مذاکرات کی میز کی طرف بڑھادیا ہے۔
ملک کے چیف ایگزیکٹو، جوڑ توڑ کے ماہرآصف زرداری اور دیگر عمائدین کی ایک جگہ موجودگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ اندرون خانہ کچھ نہ کچھ تو ہورہا ہے اور جس طرح پنجاب میں حکومت بنانے کے دعوے سامنے آرہے ہیں تو یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ شاید انہیں کہیں سے اشارہ ملتا نظر آرہا ہے۔
حالات کو دیکھتے ہوئے کہنا مشکل نہیں کہ پنجاب میں بہت کچھ ہونے والا ہے اور مونس الٰہی کا بیان کوئی سرپرائز نہیں بلکہ ایک پیغام بھی ہوسکتا ہے کیونکہ ماضی میں جوڑ توڑ کے ماہر آصف زرداری نے کئی بار ناممکنات کو ممکنات میں بدل کر دکھایا بھی ہے۔
ان تمام چیزوں کا دباؤ پی ٹی آئی کو ضرور محسوس ہورہا ہے اور اگر پنجاب میں اسمبلی تحلیل کردی جاتی ہے تو پی ٹی آئی کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ مرکز میں پی ڈی ایم کی حکومت ہے جو پنجاب میں پی ٹی آئی کیلئے آسانی سے میدان کھلا نہیں چھوڑے گی۔