پاکستان کا خیال تھا کہ کشن گنگا ڈیم کے خلاف اس کے انتہائی مضبوط کیس کی وجہ سے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی بنا پر بیک فٹ پر جائے گا اور آئندہ کے لئے دریائے چناب پر کوئی نیا منصوبہ نہیں بنا سکے گا لیکن بھارت نے دو قدم اور آگے بڑھتے ہوئے دریائے چناب پر دو نئے ہائیڈروپاور پلانٹس کی تعمیر شروع کردی ہے۔دونوں متنازعہ ہائیڈرو پراجیکٹس – 624 میگا واٹ کے” کیرو” اور540 میگا واٹ کے "کوار”- کے ڈیزائن انڈس واٹر ٹریٹی کی شقوں کی سراسر خلاف ورزی ہیں ۔
بھارت دریائے چناب پر سلال ڈیم اور بگلیہار ڈیم سمیت چھوٹے بڑے 11ڈیم مکمل کر چکا ہے ۔ دریائے جہلم پر وولر بیراج اور ربڑ ڈیم سمیت 52ڈیم بنا رہا ہے دریائے چناب پر مزید 24 ڈیموں کی تعمیر جاری ہے اسی طرح آگے چل کر مزید 190 ڈیم فزیبلٹی رپورٹس ، لوک سبھا اور کابینہ کمیٹی کے پراسس میں ہیں۔
دریائے چناب انڈیا کا پاور کوریڈور بننے جا رہا ہے جس پر 70 سے زیادہ ہائیڈروالیکٹرک پاور اسٹیشن بنانے کے منصوبے مختلف مرحلوں میں ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی کی مقدار ہمارے منگلا اور تربیلا ڈیم کی کل پیدا ہونے والی بجلی سے زیادہ ہوگی۔
انڈیا میں دریائے چناب کی لمبائی پانچ چھ سو کلومیٹر سے زیادہ نہیں لیکن اتنی کم لمبائی میں اتنے زیادہ منصوبے لگانے کی وجہ سے یہ بہتا دریا مُردہ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ دریا میں پانی کا قدرتی بہاؤ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گا۔ آبی مخلوق کی تہذیب برباد ہوجائے گی اور وادی کے بہت سے لوگ بے گھر ہوکر دربدر ہو جائیں گے۔
ہماچل پردیش میں جہاں سے اس دریا کا سفر شروع ہوتا ہے وہاں صرف سو کلومیٹر کی لمبائی میں چناب پر 50 ہائیڈروالیکٹرک پاور پلانٹ تعمیر ہورہے ہیں یعنی ہر دو کلومیٹر کے بعد ایک پاور پلانٹ۔ ریاست جموں اور کش میر پہنچنے پر یہ صورت حال اور گھمبیر ہو جاتی ہے جہاں چناب پر بڑے سائز کے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں۔اب تک کی اطلاعات کے مطابق صرف جموں کش میر میں چناب سے بجلی کی پیداوار 9000 میگاواٹ ہوگی جوکہ پاکستان کی ہائیدڑوالیکٹرک کی کل پیداوار کے برابر بنتی ہے۔
540میگا واٹ کیپسٹی کا نیا بننے والا کیرو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ دریائے چناب کے کنارے پتھرناکی اور کیرو گاؤں کے قریب تعمیر کیا جا رہا ہے، جو کشتواڑ سے تقریباً 42 کلومیٹر دور ہے۔ اسی طرح 624 میگاواٹ کا "کیرو” ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ مقبوضہ کش میر میں رن آف ریور سکیم کے طور پر بنایا جا رہا ہے اس کا سنگ بنیاد 2019 میں رکھا گیا تھا اور امید ہے کہ یہ سال 2025 میں بجلی بنانا شروع کردے گا ۔کیرو کے قریب 135 میٹر اونچا کنکریٹ گریویٹی ڈیم کی تعمیر شامل ہے۔
پاکستان کو دریاوں پر رن آف رِور پراجیکٹس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان کا موقف ہے کہ بہتے دریا کے ان منصوبوں کے لئے جتنی سٹوریج چاہئے ہوتی ہے بھارت اس سے کئی گنا بڑی سٹوریج بنالیتا ہے اور یوں پاکستان کا پانی رک جاتا ہے ۔اسی طرح ان منصوبوں کے گریوٹی ڈیم میں نچلی آوٹ لٹ نہیں رکھی جاتی، اسپل وے اونچا رکھ دیا جاتا ہے ۔
پاکستان کا موقف ہے کہ سند ھ طاس منصوبے کے برخلاف پاکستان کو ان منصوبوں کے ڈیزائین کی تفصیلات معلومات نہیں دی جاتیں یا پھر غلط معلومات دی جاتی ہیں اور یا اتنی دیر سے معلومات دی جاتی ہیں کہ پاکستان کے پاس اپنا رد عمل دینے کا وقت ہی نہیں ہوتا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدے کی شقوں کے مطابق پاکستانی وفد کو ان منصوبوں کی تعمیر سے پہلے یا تعمیر کے دوران دورہ بھی نہیں کرایا جاتا۔
ہندوستان بجلی کے ان منصوبوں پر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستانی اعتراضات کو غیر ضروری سمجھتا ہے۔ اِن کا موقف ہے کہ چونکہ وہ پانی کا رُخ دریا سے دوسری طرف نہیں موڑ رہے بلکہ چلتے پانی سے بجلی پیدا کر رہے ہیں اِس لئے پاکستان کو اعتراض کا کوئی جواز نہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیر پنجال کے قدرتی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے چناب کے پانی کو باقی ہندوستان کی طرف موڑنا تکنیکی طور پر ممکن نہیں۔ وادی میں دریائے چناب کی قدرتی ڈھلوان بھی ایک کلومیٹر کے بعد 24 میٹر ہے جسے استعمال کرکے انڈیا بجلی بنانا چاہتا ہے۔
تاہم صورت حال اتنی سادہ بھی نہیں۔ زیر زمین سرنگوں کے ذریعے دریا پیر پنجال کے نیچے سے گزار کر کے جانا اب تکنیکی طور پر ممکن ہے گو یہ مہنگا پڑے گا۔ تاہم جب مودی 2016 میں اُڑی واقعے کے بعد یہ اعلان کررہا ہو کہ “خُون اور پانی اب ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے” تو کچھ بھی ممکن ہے۔ بھارتی منصوبوں پر اعتراض نہ کرنے کا مطلب خاموشی سے اپنے حق سے دستبردار ہونا ہے۔
ہندوستانی موقف پر یوں بھی سوالیہ نشان اُٹھتا ہے کہ انڈیا کے سنٹرل واٹر کمیشن نے حال ہی میں وادی میں دریائے چناب پر پانی کے بہاؤ میں اضافہ نوٹ کیا ہے جس کی وجہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے گلیشئیرز کا پگھلنا ہے۔ لہذا پانی کی اضافی فراہمی سے وادی میں نئے بننے والے تمام ہائیڈرو الیکٹرک پاور پلانٹس کی استعداد پچیس فی صد بڑھا دی گئی ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دریائے چناب سے انڈیا سے مرالہ کے مقام پر پاکستان میں آنے والا پانی ہر سال کم سے کم تر ہوتا جارہا ہے ۔لہذا پاکستانی اعتراض بالکل جائز بنتا ہے کہ یہ اضافی پانی پاکستان کیوں نہیں پہنچ رہا؟
پاکستان کے لئے اب یہ بہت اہم ہے کی پانی کو ایک دفاعی اثاثہ سمجھتے ہوئے سر یع الفعال “واٹر ڈیٹرینس ڈویژن” قائم کیا جائے جس کے پاس نہ تو وسائل کی کمی ہو اور نہ ہی یہ اعلی حکومتی سر پرستی سے محروم ایک یتیم ادارہ ہو۔
یہ ادارہ سب سے پہلے تو پاکستان کے پاس باقی بچ جانے والے پانی کے وسائل پر اپنا حق جمانے اور انہیں جلد از جلد تعمیر و فعال کرنے کے منصوبے بنائے اور ساتھ ہی پڑوس کی مسلط کی گئی واٹر وار کی کاؤنٹر اسٹرٹیجی بنائے کہ کس طرح اپنے پانی کے کچھ حقوق ہم پڑوس سے واپس لے سکتے ہیں۔ پڑوس کے واٹر اسٹرائیک کے اثرات کے نمٹنے کی راہیں سوچی جائیں۔ فوری فیصلے ہوں جن کو اعلی سطح کی اونر شپ ملے۔
میز پہلے ہی الٹ چکی ہے۔مٹھی سے ریت آہستہ آہستہ گر تی جا رہی ہے۔ مقابل کے واٹر اسٹرائیک کو آپ کبھی بھی ان کے ڈیم اڑا کر ناکام نہیں کرسکتے.