ماشاءاللہ قوم آج آذادی کی گولڈن جوبلی منا رہی ہے۔چہل پہل نقطہ عروج پر ہے۔ من چلے نوجوان موٹر سائیکل کا سلنسر اتار کرنہ صرف موٹر سائیکلوں بلکہ اپنے اندر کا بھی سارا شور نکال کر دنیا کو بتائیں گے کہ ہم آذاد قوم ہیں۔ہمیں یہ آذادی اس لئے ملی ہے کہ ملک میں اتنا شور برپاء کریں کہ ظلم وبربریت اور ناانصافی کی وجہ سے اس وطن میں نکلنے والی کرب و الم کی ساری چیخیں اس کے تلے دب جائیں۔اس آذادی کو مدر پدر آذاد، آذادی عملی طور پر جان لیا گیا ہے۔آذادی اس مادر وطن میں اس زعم کا استعارہ بن چکا ہے کہ ہر ایک اپنی بساط کے مطابق یہاں طاقت کا استعمال کررہاہے۔ہماراقومی المیہ یہ ہے کہ یہاں جنگل کا قانون رائج ہے۔جنگل میں صرف طاقت کا راج چلتا ہے،جہاں جو جس قدر طاقتور ہے اسی قدر اس کی عزت ہے۔جس طرح جنگل میں جانوروں کے جھنڈ کےجھنڈ پھرتے ہیں بالکل ہماری بھی یہی کیفیت ہے اس ملک میں بھی پٹھانوں،بلوچوں،سندھیوں، پنجابیوں اور دیگر ذاتوں کے غول کے غول تو ملیں گے لیکن ان میں ایک متحد پاکستانی قوم نہیں ملے گی۔75 برس آذاد رہنے کے بعد آج ملک میں کروڑوں کا ہجوم تو ملے گا لیکن ایک زندہ قوم نہیں ملے گی۔ ملک میں تربیت یافتہ انسانوں کا قحط ہے، البتہ پلے ہوئے(پالتو) جانداروں کی بھیڑ ہے۔ایسے حالات میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ملک کے اقتدار پر کہنے کو تو اشرافیہ براجمان ہے لیکن عملی طور اس نام نہاد اشرافیہ کی غالب اکثریت بدترین بدمعاشیہ ہے۔یہ بدمعاشیہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ جانتی ہے، چاہے وہ کسی بھی قیمت پر ملے۔ جبکہ ذمہ داری کوئی نہیں لیتی۔اس کے اپنے تو انواع و اقسام کے حقوق ہیں لیکن دوسروں کے حقوق کو سلب کرنا یا اس کی دھجیاں اڑانا ان کیلئے کوئی کام ہی نہیں۔ یہ باتیں کوئی تخیلاتی باتیں نہیں بلکہ عملی طور ایسا ہی ہو رہا ہے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، جشن آزادی سے محض دوروز قبل پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء شہباز گل کے ڈرائیور کے گھر نصف شب جو پولیس گردی ہوئی اور اس کارروائی کے دوران جس طرح چادر اور چاردیواری کا تقدس پولیس فورس کےبوٹوں تلے روانڈا گیا۔اس نے نام نہاد "اشرافیہ "کی شرافت کا ایک اور شاندار باب رقم کردیا۔مذکورہ وڈیو کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی اس غلط فہمی میں مبتلاء رہنا چاہتا ہے کہ وہ آذاد ہے تو اس کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ہمیں نہ تو شہباز گل سے کوئی سروکار ہے نہ کسی سیاسی جماعت سے کچھ لینا دینا ہے کیونکہ اب یہ بھی طے ہوگیاہے کہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے آپس میں یہ مبینہ مفاہمت کرلی ہے کہ وسائل کو بے دردی سے لوٹو اور پھر قانون سازی کر کے خود کو بچالو۔آذادی کی اس چھتری کے تلے اس قسم کی تازہ ترین واردات موجودہ حکومت نے یہ کی کہ قومی اسمبلی نے نیب کو 50۔کروڑ روپے یا اس سے کم کی بدعنوانی کی تحقیقات سے روک دیا گیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا اس آذاد پارلیمنٹ کی دانست میں 50۔کروڑ کی بدعنوانی شائد جائز ہوچکی ہے۔یہ بدعنوانی اب ایسی ہے جیسے عام آدمی کیلئے 50۔روپے۔یوں اس آذاد قوم کے عوام اور خواص میں ایک نئی لکیر کھینچ دی گئی ہے جس میں عام آدمی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔دوسری طرف زندہ قوموں میں فرد جو معاشرے کی اکائی ہے وہ محترم ہے۔ قوم کےہر فرد کے حقوق برابر ہیں۔آذادی اگر کسی احساس کا نام ہے تو وہ یہ ہے کہ ایک سماج میں رنگ ،نسل،یا دھن، دولت کی بنیاد پر کسی ایک کو دوسرے پر برتری حاصل نہیں۔سب کے حقوق برابر ہوا کرتے ہیں۔اگر آذادی کا یہ حق طے ہے تو پھر جاتی امراء کے محل کے گرد 50۔ ہزار پولیس اہلکار حفاظت پر کیوں مامور ہیں،جبکہ دوسری طرف اظہار ڈرائیور کے گھر وہی پولیس چادر اور چاردیواری کا تقدس بوٹوں تلے روند رہی ہے۔ یہ کیسی آذادی ہے یہ کہاں کی آذادی ہے۔یہ کیسا آذاد سماج ہے ؟جہاں ایک خالق کے بنائے گئے انسانوں کے بنیادی انسانی حقوق کے پیمانے ہی مختلف ہیں۔اس آذادی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس میں محرومیوں اور شرمندگی کی داستانوں کی اس درجہ بہتات ملے گی کہ پھر 75۔ برس کے کارناموں کو ڈھونڈنے کو بھی دل نہیں کرے گا۔ویسے تکلف بر طرف ان کارناموں کی تعدادعددی اعتبار سے آذادی کے سالوں سے بھی کم ہیں تو پھر ان پر اترانا بھی کیا؟ آذادی کی گولڈن جوبلی غل غپاڑہ کرکے منانے سے کچھ نہیں بنے گا۔75۔برس میں ملک کا بڑا حصہ جدا ہوگیا۔جو باقی بچا اس میں ہر طرف تنزلی کا دور دورہ ہے۔ملک میں ایسے بیسیوں” سرمایہ دار "پیدا ہوچکے ہیں جن کے پاس اتنی دولت ہے جو ملکی دولت سے کہیں ذیادہ ہے۔ آذاد مملکت پاکستان میں گنتی کے یہی چند خاندان آذادی سے پنپتے رہے جبکہ ملک مالی ابتری میں بری طرح گھر چکا ہے ۔آذاد مملکت کی مالی حالت یہ ہوچکی ہے کہ آئی ایم ایف ہمیں من چاہی شرائط کے باوجود قرضے کی قسط دینے کو تیار نہیں۔ موٹرسائیکل کا سلنسر نکال کر جشن منانے والی شورزدہ قوم کے سر سے پانی گزر چکا ہے۔ وقت آگیا کہ اقتدار کے ٹھیکیداروں کو کوچہ اقتدار سے بے دخل کر کے عام آدمی کی دوست حکومت لائی جائے۔جس میں مرکز نگاہ قوم کا وہ عام فرد ہو جس کیلئے یہ ملک بنا تھا۔اس قوم کے اسلاف نے ایسے پاکستان کیلئے جدوجہد کی تھی جس میں عام آدمی ایسا ہو کہ جس کو اتنے ہی انسانی حقوق حاصل ہوں جس قدر حقوق ملک کے حاکم کو حاصل ہوں۔آذادی اس نعمت کا نام ہے کہ عام آدمی کو نہ صرف بتایا جائے کہ وہ ملک جس کی معیشت اس قدر مضبوط تھی کہ وہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک کو قرضہ دے چکا ہو اسے موجودہ حال کو کس کس نے پہنچایا اور پھر ان قومی مجرموں کو نشان عبرت بنایا جائے۔آج مملکت خداداد پاکستان کو جس آذادی کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ملک و قوم کو لوٹنے والے ٹولے کے چنگل سے صرف آذاد کرائے بلکہ سلنسر کے شور کے پیچھے لگائی قوم کی لوٹی ہوئی ایک ایک پائی واپس لی جائے تاکہ انگریزوں کی غلامی کے بعد انگریزوں کے آئی ایم ایف سے آذادی حاصل کرکے ملک کو معیشت کی مثبت سمت کی طرف گامزن کیا جاسکے۔یہ ایسی ریاست ہو کہ جہاں حاکم وقت اور عام آدمی کو یکساں بشری حقوق حاصل ہوں تب جا کر حقیقی آذادی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔